مجھے ہے حکم اذاں۔
"اور شلوار اتار دی گئی"
جون 2015 کی ایک تحریر۔
ایک دن وہ کپڑے دھونے والا صابن لے آئی۔ وہ قریب بنے ہوئے نلکے پر گئی اور اپنے اور اپنے بچوں کے کپڑے دھونے شروع کردیئے۔ آج دھوپ بھی چمکدار تھی لیکن برسات کی وجہ سے موسم کا اعتبار نہیں تھا چنانچہ جلدی جلدی کپڑے دھوکر وہ سکھانے کیلئے ایک طرف چل پڑی۔
تھوڑا آگے گئی تو ایک سفید رنگ کی پرشکوہ عمارت نظر آئی جہاں ایک بہت بڑا گیٹ لگا تھا۔ اس نے ایک شلوار اس گیٹ پر ٹانگ دی۔ قریب ہی ایک صحافی موجود تھا، اس نے فوراً تصویر کھینچ کر اپنے نیوزروم ارسال کردی اور ساتھ ہی بریکنگ نیوز چل پڑی کہ سپریم کورٹ کی عمارت پر کسی نے شلوار ٹانگ دی۔
آناً فاناً سپریم کورٹ کے چیف صاحب نے نوٹس لے لیا اور پوری حکومتی مشینری اور دھرنے کے منتظمین کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر سب لوگ جج صاحبان کے سامنے موجود تھے جج صاحب نے انہیں غصے سے لتاڑنے کے بعد جج صاحب نے حکم دیا کہ "شلوار اتار دو" اور فی الفور وہ شلوار سپریم کورٹ کے گیٹ سے اتار دی گئی۔
قصور میں پچھلے دس سالوں سے معصوم بچوں کی شلواریں اتاری جارہی تھیں اور ابھی تک کسی جج نے نوٹس نہیں لیا۔ بلکہ دو دن پہلے جج صاحبان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس معاملے کی عدالتی انکوائری کی ضرورت نہیں، پولیس اپنا کام درست کررہی ہے۔
یاد رھے، نوٹس لینے کیلئے شلوار کا اتارنا ضروری نہیں بلکہ اس کا لٹکانا ضروری ہوتا ھے وہ بھی عدالت کے دروازے پر....
محمد فیصل
Post a Comment