کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

مجھے ہے حکم اذاں
پاکستان بھی وہی ہے، ہندوستان بھی وہی ہے، دشمن افواج بھی ویسے کی ویسے اور ہماری پاک افواج بھی پہلی جیسی جرأت مند اور جذبہ شہادت سے سرشار ہیں، بس فرق بس اتنا ہے کہ اب پاکستان کا حکمران عمران خان ہے اور یہ شاید اسی ایماندار حکمران کی ہی برکت ہے کہ اب کی بار دشمن اپنی بچھائی ہوئی چال میں پھنس جاتا ہے، ہر نئے جھوٹ پر اس کو ایک نئی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کارگل کی جنگ ہم جیت کر بھی ہار گئے تھے اور آج یہ جنگ ہم لڑے بغیر ہی جیتنے والی پوزیشن پر ہیں. خدا کا فضل و کرم کیسے کسی کے سارے مسئلے مسائل حل کرتا ہے چاہے دنیاوی دلیلیں اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں اس کے لئے آپ کو صرف پچھلے 20 دنوں کی پاکستان اور بھارت کی صورت حال دیکھ لینا چاہئے ابھی چند ماہ پہلے سیاسی مخالف، تجزیہ کار، دانشور،مبصر اور سابقہ حکمران کہتے تھے چلو امریکہ جائے گا جیسا کہ راویت تھی کئی عشروں سے کہ ادھرحلف اٹھایا اور ماتھا ٹیکنے کے لیے امریکہ بھاگ جاتے، لوگ کہتے تھے کہ حاضری دینے یہ بھی جائے گا کیوں کہ گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکہ بہادر کے ذریعے کوئی ریلیف تو لینا پڑے گا مگر ناقدین بھی حیران ہیں کہ آج سات ماہ گزر گئے اور امریکہ جانے کا نام نہیں لے رہا عجیب حکمران بنا اب کے.
ہر کوئی سوچ رہا تھا اتنی بڑی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے یہ شخص کیسے چل پائے گا؟ لیکن اپوزیشن کو سمجھ نہیں آرہی کرنا کیا ہے اس کے خلاف اور اپوزیشن ذلیل و رسوا بھی ہو رہی ہے. آج سے پہلے جتنے بجٹ آتے ساتھ ہی ملک میں مافیاز بھی متحرک ہو جاتے کہ مہنگائی آئے گی لوٹ مار کریں گیں لیکن وہ بجٹ لایا اور مافیاز کو سمجھ نہیں آ رہی یہ کیا کر دیا اس نے تو کئی ٹیکس ہی معاف کر دیے اب کیا کریں؟ ساہیوال کا واقعہ ہوا مخالفین نے کہا کہ اب تو خوب بینڈ بجائیں گے اسکی اور اس نے اس طرح کے ایکشن لے کر دیکھائے کہ مخالفین کو اپنے ماضی کا جواب دینا مشکل ہو گیا، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ معیشیت دان کہتے تھے حالات ہمارے حق میں نہیں ہیں. اپوزیشن نے پہلے ہی شور مچا دیا کہ او لٹے گئے، مارے گئے، مگر اس نے ہرکسی کو حیران کردیا اور معشیت کو سہارا بھی دے دیا اور پاکستان کو دنیا میں ایک مرتبہ پھر دوسرے ملکوں کے سامنے منوانا شروع کر دیا. کئی سالوں سے بردار اسلامی ملک سعودی عرب میں ہزاروں پاکستانی معمولی جرائم پر جیلوں میں قید تھے اور سوشل میڈیا پر ان کی درد ناک آہ و فغاں بھی کئی برس سے ہر پاکستانی نے سنی مگر ان کی داد رسی کسی نے نا کی، مگر اس شخص کی ایک درخواست نے وہ کام کر دیا. سڑکوں، پارکوں اور کھلی جگہوں پر سونے والے پاکستانیوں کی بے بسی پر کسی نے کبھی دھیان نہیں دیا مگر اس شخص کو ان کی تکلیف بھی اپنی ہی محسوس ہوئی اور ان کے لیے چھت، بستر، روٹی اور دوائی کا انتظام کر دیا. بھارت کی طرف سے سرحد پر ہونے والی دہشت گردی بھی نئی نہیں ہے مگر اب کے جو جواب دیا گیا اور جس طرح مادر وطن کی طرف اٹھنے والی آنکھوں کو نوچا گیا اس سے ''ہم اہل صفا مردود حرم'' لوگ ان تمام حالات کو ایماندار اور دلیر قیادت کی برکت ہی سمجھیں گے. پچھلی 2 دہائیوں سے لگتا تھا درد مندوں کے نصیب میں کڑھنا ہی لکھا ہے جو کہ اس بندہ خدا کے آنے کے پہلے سال ہی 180 کے زاویے سے تبدیل ہو گیا۔ اگلے چوہدری اور بدمعاش بن کر آئے تھے اس نے بالوں سے پکڑ کر منہ مٹی میں رگید دیا۔ اچھی طرح رگیدنے کے بعد ٹھنڈا پانی بلا کر رخصت بھی کر دیا۔ پچھلے ادوار میں کی گئی سرجیکل اسٹرائیک پراپوگنڈہ کا مناسب جواب دیا جاتا تو شاید حالات کافی دیر پہلے ہی بہتر ہو جاتے مگر سابقہ حکمرانوں نے اس سرجیکل اسٹرائیک کا جواب ڈان لیکس جیسی بے شرمی سے دیا۔ دوبارہ اسٹرائیک کا سوچنے والو،
ابھی تو ابتدا عشق ہے روتا ہے کیا،
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
 مزا تو جب آئے گا جب اس سرجیکل سٹرائیک سے مایوس ہو کر وہ پچھلے والے کی طرف لوٹیں گے تو ثبوتوں کا یہی سوال بھوت بن کر دوبارہ ان کو ہی چمٹ جاۓ گا۔

رہا ہونے والا ''ابھی نندن'' آجکل پروین شکر کا یہ شعر سب کو سناتا ہو گا 
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
محمّد فیصل

Post a Comment