بھیک یا محنت؟

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوگی 
کسی سماجی سائنسدان نے دو جوان لڑکوں کو لیا ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا، شام کو بھکاری لڑکا آٹھ سو اور مزدور لڑکا ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔ دراصل بحیثیت قوم، ہم لوگ خدا خوفی کے جذبے سے لبریز بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں. ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں 
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی، ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں. الله مغفرت فرماۓ ہمارے استاد محترم سید منیر حسین ہاشمی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں اور اس کو محفوظ مقام پر پہنچا دیں وہ اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا. کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں، مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے خود دار آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں، اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور 
خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں، صحیح مستحق کی مدد کریں تو شاید ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرانے کے لئے کافی ہو سکتا ہے. یاد رکھئے بھیک دینے سے گداگری کبھی ختم نہیں ہوگی، بلکہ بڑھتی ہے، بہت اچھی بات ہے کہ آپ خیرات دیں صدقہ دیں ہمیں فخر ہے کہ اس مادی دور میں بھی بھی خدا ترس اور نیک لوگ ہیں، نادارغریب لوگوں اور یتیم بچوں کی امداد کرتے ہیں، اللہ کا خوف ھمارے معاشرہ میں ہے، صدقہ خیرات زکوۃ دینے والوں کی بھی کمی نہیں، بے شک نادارغریب یتیموں کی مدد کرنا اسلامی تعلیمات ہیں، لیکن کچھ منصوبہ بندی محنت کش طبقے کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کیجیے اور احتیاط کے ساتھ، اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی باقی مرضی آپ کی

محمّد فیصل 

Post a Comment