ماہ صیام میں موت کا رقص

گھر گھر رقص کرتی موت

28/06/2015
کی تحریر



گرمی سے تڑپتے بلکتے، بے ہوش ہوتے، پانی، بجلی، علاج معالجے اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کو ترستے عوام اور سسک سسک کر دم توڑتے روزہ داروں کی تعداد میں منٹوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں بھی اب کسی مریض کو لینے کی جگہ نہیں بچی اور قبرستانوں میں دفنانے کے لیے جگہ ختم ہو چکی ہے مگر بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ کیا حکمران اور کیا عوام ، کوئی بھی ان حالات میں خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ من حیث القوم ہم ایک بے حس اور مردہ قوم بن چکے ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ حق گوئی کی پاداش میں جمہوریت ڈی ریل کرنے کی سازش کا الزام بھی لگ سکتا ہے. اس لیے جمہوریت کے استحکام کے لیے 1100 لاشوں کے علاوہ اور بھی قربانیاں دینی پڑیں تو خدارا خاموشی سے دیتے رہیں، جان تو آنی جانی ہے، سو جمہوریت کے تسلسُل کے لیے قربان ہو جائیں، اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے. گورکنوں نے ایک قبر کی قیمت پندرہ سے چالیس ہزار کر دی ہے اور اتنی اموات کے باوجود حکومتی بے حسی اور عیاشیوں میں کوئی خلل نہیں پڑا، خلل پڑے گا بھی کیسے....؟ پاکستان میں تو یہ لوگ صرف حکومت کرنے آتے ہیں اور حکومت کرنے کے بعد لندن، پیرس اور دبئی نکل جاتے ہیں. موجودہ حکمران آج بھی اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں اور مرکز، صوبے اور کے الیکٹرک کے ٹھنڈے دفاتر سے یہ آواز آ رہی ہے کہ کہیں بجلی کا بحران نہیں ہوا، کہیں کوئی کہہ رہا ہے کہ آئندہ دو دن تک ہلاکتوں پر غور کیا جائے گا، اور کوئی بے حسی و بے شرمی میں ڈوب کر کہتا ہے کہ گرمی سے کوئی مرے گا تو اس کی ذمہ دار حکومت کیسے ہو سکتی ہے؟ ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کے سب سے بڑے اور جدید ترین سہولتوں سے مالا مال شہر کی آج یہ حالت ہے کہ 1100 سے زیادہ افراد گرمی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور حکومتوں اور اداروں میں بیٹھے لوگ زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کا مداوا کرنے کے بجائے کمال بے نیازی سے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، قدرتی آفات کا آ جانا یا ہنگامی صورتحال کا پیدا ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں مگر آج کے دور میں جب آپ ایک سال پہلے یہ جان سکتے ہیں کہ اگلے سال اس ماہ میں کیا موسم ہوگا اور عوام پر اس کے کیا اثرات ہوں گے تو یہ غفلت کیوں برتی گئی، کوئی حکومت کہیں تھی تو اس نے اس کی پیش بندی کیوں نہ کی، اور اچانک بھی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو اس سے نمٹنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریکوری پلاننگ، کچھ تو ہونا چاہیے تھا؟ ایسی صورتحال میں کیا حکومت کی جانب سے بڑے بڑے ہالز کا انتظام نہیں کیا جاسکتا تھا جن میں چوبیس گھنٹے جنریٹر مہیا کیے جاتے آجکل اسکولوں کی چھٹیاں ہیں کیا اسکولوں میں ہنگامی میڈیکل کیمپ نہیں کھولے جانے چاہیے تھے جہاں گرمی سے دم توڑتے مریضوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جاسکے اسی طرح مردہ خانوں کا انتظام تاکہ جان سے جانے والوں کی میتوں کو گرمی سے خراب ہونے سے بچایا جا سکے....؟ مشہور کامیڈین اداکار عمر شریف کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ کے کسی عزیز کی میت خراب ہو رہی ہو اور سرد خانے میں جگہ نہ ملے تو اسے سندھ اسمبلی ھال میں لے جاو، گورنر ہاوس، وزیر اعلٰی ہاوس یا کسی وزیر کی رہائش گاہ پر لے جاو قبر کا انتظام ہونے تک. کیونکہ یہی وہ جگہیں ہیں جو اس قیامت خیز گرمی میں بھی ٹھنڈی ہیں، مگر مجبور عوام کی داد رسی کون کرتا یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک طرف تھر میں سیکڑوں بچے دم توڑ رہے تھے تو عین اسی وقت دوسری جانب موئنجو دوڑو میں ایک ثقافت کی عبرت گاہوں پر دوسری ثقافت ناچ رہی تھی جنہوں نے عوام کو کمی کمین رعایا سمجھا ہوا ہو ان کے لیے یہ اموات کوئی بڑی بات نہیں انہیں یہ پتا ہے کہ اس عوام کا جتنا بھی خون چوس لیں اگلی بار یہ "شاہ دولہ ولی" کے "چوہے" پھر انہیں کو منتخب کر کے اسمبلی تک پہنچا دیں گے.
اور یہاں میڈیا کا کردار بھی نہایت شرم ناک ہے جسے مفاد عامہ کے کاموں اور خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ پریانکا چوپڑا کی سالگرہ اور سونگ ایٹم، نئی ریلیز ہونے والی ہندی فلموں کی تفصیل، فلموں کے بجٹ اور بزنس ہر نیوز بلیٹن میں دکھانے والے نیوز چینلز نے موسم کا حال دکھانا کیوں بند کر دیا ہے....؟ ہیٹ وارننگ اور احتیاطی تدابیر پر مبنی خبروں کو میڈیا نے کتنا وقت دیا....؟ پیمرا نے کوئی فارمولہ نہیں دیا کہ مفاد عامہ کے لیے صرف بھارتی فلموں کے ٹریلیر اور ان کے اداکاروں کی شادی سے لے کر مردوں کو آگ لگانے تک کی ساری رسومات براہ راست دکھانے کے علاوہ بھی کوئی کام ہوتے ہیں. غرض کس کس کی نا اہلی کا رونا رویا جائے کہ یہاں چوروں اور قاتلوں کے ٹولے بیٹھے ہیں جو عوام کا خون چوس کر اپنی توندیں اور بنک بیلنس بڑھا رہے ہیں اور عوام کا کمال یہ ہے کہ ایسے حالات میں جنھیں گالیاں اور بد دعائیں دیتی ہے، اگلے انتخابات میں جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایماندار، دیانتدار، محب وطن پاکستانیوں، عوام کا درد رکھنے والے عوامی لیڈروں اور درویش صفت لوگوں کے مقابلے پر پھر انہی بھیڑیوں کو چن کر دوبارہ لے آتی ہے جو انکے جسم کی کھالوں سے لیکر رگوں میں خون کا اک قطرہ تک نہیں چھوڑنے کے روادار. معروف صحافی حسن نثار کی بات یاد آ رہی ہے کہ "حکمرانوں کے گھروں میں اندھیرا کر دو، پاکستان روشن ہو جائے گا" حکمرانوں کے ساتھ ان آزمائشوں کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری تو ہم عوام پر بھی عائد ہوتی ہے.
ذرا سوچیئے خدا کے لئے ذرا سوچیئے...
                   محمد فیصل 



Post a Comment