شریکِ حیات کے نام۔
ہمارے معاشرے میں بیوی کے سوا ہر شخص کی تعریف کی جاتی ہے حالانکہ پیدا کرنے والے نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ تم ایک دوسرے کا زوج ہو یعنی دو جزو جن سے ایک جوڑا بنتا ہے۔ یہ فضیلت کسی اور رشتہ کو نہیں دی گئی لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں والدین، بہن بھائیوں، اولاد، رشتہ داروں اور دوستوں کی جیسے چاہے تعریف کریں کسی کو معیوب نہیں لگے گی لیکن جونہی آپ نے اپنی شریک حیات کے لئے تعریف کے دو بول کہہ دیئے تو پھر دیکھیں کیسی درگت بنتی ہے۔ اس "رسک" کے باوجود مجھے یہ کالم اپنی رفیقہ حیات کے لئے لکھنا ہے اور انہیں سالگرہ کہ مبارک باد دینا ہے۔ قبل ازیں ان کی محبت میں چند تحاریر لکھ چکا جس کے لیے قارئین کی طرف سے پذیرائی ملی جبکہ کچھ لوگوں کی طرف سے طعنے کی شکل میں پیغامات بھی موصول ہوئے۔
ایک دن ہم آپس میں بات کر رہے تھے کہ محبت کیا ہے تو بیگم صاحبہ نے سادہ سے الفاظ میں جو کہا میں ان جذبات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں کہ "محبت یہ ہے کہ جو آپ کا محبوب چاہے، آپ بھی وہی چاہو۔ جو محبوب کرے، تم بھی وہی کچھ کرو۔ اگر ایک بھوکا پیاسا ہو تو دوسرا بھی اسی حالت میں ہو۔ محبوب جس حال میں ہو، تم بھی اسی حال میں رہو، جو چیز ایک کو پسند ہو، دوسرا بھی وہی پسند کرے اور جس سے ایک کو نفرت ہو دوسرا بھی اس سے نفرت کرے اس طرح دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے اور کوئی فرق نہ رہے۔" واہ کیا خوبصورت انداز میں محبت کی وضاحت کردی یعنی "میں تے ماہیا اک جندڑی تے اونج ویکھن نو دو" (میں اور میرا محبوب یک جان ہیں صرف دیکھنے میں دو نظر آتے ہیں)۔ یہ سن کر مجھے اپنی قسمت پر رشک آیا، مجھے محبت کا دعوی ہے تو دوسری طرف سراپا عشق ہے۔ واقعی محبت ایک اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے اور ایسی زندگی خدا کی عطا اور فضل ہے۔ خدا اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کے بندے بھی محبت الہی سے سرشار ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے کہ تم وہی چاہو جو خدا چاہیے۔ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کر دو اور پھر وہ مقام آتا ہے کہ خدا ان سے راضی ہوجاتا ہے اور وہ خدا سے راضی ہوجاتے ہیں۔ اخلاص ہو تو عشق مجازی سیڑھی بن کر عشق حقیقی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ محبت جینے کے آداب سکھا دیتی ہے۔ میری آنٹی نے پچھلی تحریر پڑھ کر تبصرہ کیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعی :دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں" اور اپنی تو کیفیت بقول فراز یہ ہے کہ
ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا
یہ مارچ کی 6 تاریخ اور سن 2010 تھا جب ہمارا نکاح مسنونہ شادی خانہ آبادی ہوئی۔ ہماری رفاقت کے گیارہ سال ہونے والے ہیں، تب سے زندگی کے دکھ سکھ، غمی خوشی اور دھوپ چھاؤں میں ایک ساتھ ہیں اور حالات کیسے بھی آئے دونوں مل کر سامنا کرتے ہیں۔ شادی کے بعد چار ماہ پاکستان رہنے کے بعد دونوں کویت منتقل ہوئے۔ ایک نیا ملک جہاں نہ کوئی جاننے والا اور نہ ہی مستقبل کے حالات کا اندازہ تھا۔ مجھ یاد ہے وہ 30 ستمبر 2010 کی ایک گرم صبح تھی جب میں نے کویت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کیا۔ اس دور میں جب کبھی افسردہ اور متفکر بھی ہوا، تو پاس آکر حوصلہ دیتے ہوئے کہا پریشانی کی کیا بات ہے، خدا پر بھروسہ رکھیں، ہر طرح کے حالات میں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ پھر ہر معاملہ میں میری ڈھارس بندھائی، خانگی زندگی ہو یا معاشرتی معاملات، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے تعلق ہو یا دوست احباب سے معاملات، ہم واقعی یک جان دو قالب کی صورت ہیں اور دعا ہے کہ پروردگار حسد اورنظر بد سے بچائے۔ ہم خدا کے فضل و کرم اور عنائیات پر اس کے حضور شکریہ کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں۔ فوزیہ نے زندگی میں کبھی گلے شکوے نہیں کیے، مشکل حالات صبر و برداشت سے گزارے، کبھی بڑی خواہشات نہیں کیں بلکہ ہمیشہ صرف ایک ہی خواہش کا اظہار کیا کہ یونہی پہلو میں بیٹھے رہو۔
خالق کائنات نے قرآن حکیم میں اہل ایمان کی اس آرزو کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا ہے جس کا اظہار وہ حضور باری تعالیٰ میں یوں کرتے ہیں کہ "اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے" (فرقان 74)۔ بیوی اگر دل کا قرار ہے تو شوہر کڑی دھوپ میں شجر سایہ دار ہے۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ اگر کبھی خدا ناخواستہ مالی یا صحت کی شدید پریشانی لاحق ہوجائے تو صرف میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ دوست احباب بس تھوڑی دیر کے لئے آئے اور خبر گیری کرکے چلتے بنے، ایک دوسرے کے لئے صرف میاں بیوی ہی جیتے ہیں۔ مشاغل، عادات اور دلچسپیاں مختلف ہونے کے باوجود محبت اور خوشیوں بھری زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کو خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنا ہوتا ہے۔ رسول اکرم کی ازدواجی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور آپ نے بیوی سے بہترین سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ قارئین اس رشتہ کو وہ اہمیت اور مقام دیں جس کا یہ متقاضی ہے۔ اپنی شریک زندگی کی تعریف کریں، اسے وہ مقام اور عزت دیں جس کی وہ حق دار ہے۔ اپنے قرابت داروں میں اپنی اہلیہ کو کبھی فراموش نہ کریں اور ہی نظر انداز کریں۔ اس کی خدمات کا برملا اعتراف کریں، ایک گھنے سایہ کی طرح اس پر چھاؤں رکھیں اور اس کی ڈھال بن کر رہیں۔ میاں بیوی کے درمیان کوئی بات بھی پوشیدہ نہ ہو اور ایک دوسرے سے کبھی بھی غلط بیانی سے کام نہ لیں۔ خوشگوار اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے یہی اصول کارگر ہیں۔
فوزیہ آپ کو سالگرہ بہت مبارک ہو!
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
محمد فیصل
Post a Comment