عید الضحٰی پر لبرلز کا شور

مجھے ہے حکم اذاں

عید الضحٰی پر لبرلز کا شور۔

ایک وقت تھا کے لوگ اسلامی روایات اور اسلامی اقدار کی قدر کیا کرتے تھے، رفتہ رفتہ مسلمانوں کے مذہبی تہوار متنازع بنانے کا کام خفیہ گروپس اور  سوشل میڈیا کے کلوز گروپس میں شروع کیا گیا، اور آج حالت یہ ہے کے لوگ ببانگِ دٌھل احکام اِسلام اور اسلامی روایات کے خلاف کھل کر بولتے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے نہ تو کسی قسم کی شرمندگی محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کی بات یا دلیل کو اہمیت دی جاتی ہے. دراصل مسلمانوں کو نہیں بلکہ مسلمانوں کی روایات کو ٹارگٹ کرنے کے لیے اس زہر کی بھاری مقدار آہستہ آہستہ ہماری رگوں میں انڈیلی گئی ہے.
طریقہ واردات کچھ یوں ہے کے ایک تصویر میں ایک غریب بچے کو دکھایا جاتا ہے اور ساتھ میں کسی مسجد کی تزئین و آرائش کی تصویر لگائی جاتی ہے، تصویر کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ گویا بچہ کہہ رہا ہے کے "کاش میں کوئی مسجد 
ہوتا"


میں سوال کرتا ہوں کے اس بچے کی تصویر کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کی تصویر لگا کر یہ کیوں نہیں لکھا جاتا کے "کاش میں پارلیمنٹ ہاؤس ہوتا یا میں کوئی گورنر ہاؤس ہوتا، میں کسی وزیر سفیر کا گھر ہوتا؟" کیا ٹارگٹ کرنے کے لیے وہ مسجد ملی جو پہلے ہی چندے سے چلتی ہے..؟ جہاں سے 5 وقت الله کی کبریائی کی آوازیں آتیں ہیں؟
ایک اور تصویر میں یہ دکھایا گیا کے مسجد بن رہی ہے اور ایک آدمی سیمنٹ کی ایک بوری اس مسجد میں عطیہ کر رہا ہے پاس ایک غریب عورت ہے اور تصویر پے لکھا ہے کہ "کاش تم سیمنٹ کی بوری کی بجاۓ ایک آٹے کی بوری اس مسکین عورت کو لے دیتے"
آج کل عید قربان کی آمد آمد ہے اور ہر سال کی طرح معاشرے کے کچھ ہمدردوں کو یہ فکر ہو رہی ہے کے آپ قربانی کے لیے اپنی رقم ضائع کرنے کی بجاۓ کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروا دیں، اور یہ بیہودگی ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس پراپیگنڈا سے متاثر ہونے والے ہمارے اکثر دوست اس بات کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں کے قربانی کے فضائل و احکام کیا ہیں...؟ میں کوئی عالم دین نہیں لیکن قربانی کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے بلا چوں و چراں اس پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتا ہوں، قدرت الله شہاب کی بیوی ڈاکٹرعفت ایک ہوٹل میں بیٹھیں تھیں کے ایک انگریز فوجی افسر ان کے پاس آ کے بیٹھ گیا، پوچھنے لگا کے "تم لوگ سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے..؟" ڈاکٹرعفت نے جواب دیا کے "ہمیں اس کا حکم نہیں ہے" انگریز فوجی کہنے لگا کے "اس حکم میں حکمت کیا ہے؟" ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کے "تم فوجی ہو کر حکم کی اہمیت کو نہیں جانتے؟
میں بالکل اس چیز کا حامی ہوں کے معاشرے کے غریب لوگوں کی مدد کی جاۓ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی کفالت کی جاۓ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن یہ نہیں کے قربانی اور دیگر احکام خداوندی پر تنقید کریں یا اسلامی روایات کو برا بھلا کہہ کر اپنے ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیں، اللہ کے نبی علیہ السلام کو حکم تھا کہ اپنی بہترین چیز خالق کائنات کے رستے میں قربان کیجئے تو سیدنا ابراہیمؑ علیہ السلام اپنے اس عزیز بیٹے سیدنا اسماعیلؑ علیہ السلام کو الله کی راہ میں قربان کرنے نکل پڑے جو فرزند ان کو الله نے 90 برس کی عمر میں عطا فرمایا تھا اُن سے اچھی بہترین اور مہنگی چیز حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کے پاس کیا ہو سکتی تھی؟ لیکن جب ہماری باری آتی ہے تو یہ نہیں کہ اچھا اور بہترین جانور خریدیں بلکہ سستا سا حصہ دیکھ کر قربانی میں ڈال لیتے ہیں۔ ہمیں اپنے جیسوں سے تو بہت شرم آتی ہے کیا اپنے مالک اور خالق کے رستے میں جانور قربان کرتے وقت شرم نہیں آتی؟
چند سال پہلے کچھ دوستوں کے ساتھ گوجرانوالہ کے ایک مشہور ہوٹل پر کھانا کھانے کے لیے گیا قریب 5 درجن کباب اور اتنے ہی تکے کھانے کے بعد سیگرٹ سلگا کر میرا ایک دوست(جو لبرلز سے کافی متاثر تھا) بولا کے ایک ہی دن (عید الضحٰی) میں ہزاروں جانوروں کو ذبح کر دیا جاتا ہے یہ جانوروں کے حقوق کی پامالی ہے، میں نے عرض کیا کے ابھی جو کباب تکے کھائے ہیں کیا وہ فوم کے بنے تھے...؟ حکومت نے حلال جانوروں کے حقوق کے لیے منگل اور بدھ کے دن گوشت کا ناغہ رکھا ہے، اب بتائیں منگل بدھ کے دن کہاں سے آپ کو گوشت کھانے کو نہیں ملتا؟ کہاں کونسے شہر کی کونسی گلی سے باربی کیو نہیں ملتا؟ خود سوچو کے یہ جانوروں کے حقوق کی پامالی نہیں ہے کیا..؟ سوچو اور مسلمانوں کے تہواروں پے تنقید بند کرو.


محمّد فیصل

Post a Comment