جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

مجھے ہے حکم اذاں
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے والدین سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہِ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دراصل قوموں کی داستان عروج و زوال سے مزین ہے، ہر قوم کی تاریخ میں وقت کچھ ایسی گھڑیاں ضرور لاتا ہے۔ جب ذاتی مفاد، جان و مال ملکی و اجتماعی مفادات کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ ان آزمائش کی گھڑیوں میں جب قوم اپنے فرض سے آنکھیں چرانے لگے۔ جب کڑیل جوان میدان جنگ کی بجائے گھر میں چھپنے کو ترجیح دیں۔ تو ایسی قوموں کے مقدر میں آنے والے لمحات کا سورج خوشی و مسرت نہیں بلکہ اپنوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ ذلت و غلامی کی نہ ٹوٹنے والی زنجیریں لے کر آتا ہے، اور پھر بعض اوقات اُس طوق غلامی کو اتارنے میں صدیاں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک گھڑی 6 ستمبر 1965 کو پاکستان کی تاریخ میں بھی آئی لیکن سلام ہے اس قوم کو جس نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ سلام ان نوجوانوں کو جن کے لیے ملکی سلامتی ان کی اپنی جان و مال سے کہیں زیادہ تھی، سلام ہے ان شہیدوں کو جنہوں نے اپنے وطن کے دفاع میں شہادت کا رتبہ پایا۔ ان ماؤں کو سلام جنہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز جانا، سلام ان خواتین کو جنہوں نے اپنے سہاگ کی لاش پر نوحہ نہ کیا۔ بلکہ فخر سے سر اٹھا کر کہا کہ میرا شوہر شہید ہے۔
میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اس دن کی تجدید کرتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں لسانی، صوبائی اور دیگر تمام تعصبات کو آخری حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ملک کی بقاء ہی میری بقاء ہے۔ اور میں اپنے تئیں جو بن پڑا اس ملک کی بھلائی کے لیے کروں گا۔

یہ غازی، یہ تیرے پر اسرار بندے 
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی 

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا 
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی 

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔




محمد فیصل 

Post a Comment