مذہبی سیاست
ممتاز مفتی کی کسی کتاب میں پڑھا تھا انھوں نے غالبا قدرت اللہ شہاب سے دریافت کیا "قدرت تم نے اسلام کی سب سے بڑی خدمت کیا کی؟" جس پر قدرت نے جواب دیا "میں نے اسلام کو کبھی ذاتی فائدے کیلیے استعمال نہیں کیا"۔مذہب کو ذاتی مفاد میں استعمال کر کہ ہم دراصل اسکی شکل بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔
میرے اور میرے دوستوں کے جذبات مذہب اور مولانا کے بارے میں اپنی جگہ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست اب دین فروشوں کی مارکیٹ کا روپ اختیار کر چکی ہے اور اس کاروبار میں سب سے زیادہ مول سیاست میں ملتا ہے اسی لئے کچھ سیاستدان دین کے پردے میں رہ کر سیاست کر رہے ہیں تاکہ زیادہ مول حاصل کر سکیں، اس سے دوہرا فائدہ ہے ایک تو یہ سیاست میں مزے اور دوسرا اپنے مفادات کے لیے کوئی نہ کوئی شرعی جواز پیش کر کے اپنی سیاسی سمت کو بدلنا آسان، دین فروشی کے کاروبار کو سیاست کا حصہ بنانے میں فضل الرحمان اور نواز شریف جیسے سیاست دانوں نے فتنہ سازی اور چند ضیاء جیسے جرنیلوں نے مالی کاکام سر انجام دیا.
بد دیانت،گھمنڈی،خائن،بزدل،جھوٹے حکمران دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں اور قوموں کو تباہ کرتے ہیں کبھی کبھی قوم انکو تباہ کر دیتی ہے. اداروں میں اقربا پروری،کرپشن،منہ پر داڑھی ،سر پر ٹوپی ہونے کے باوجود جھوٹ کی حمایت، طاقتور کے آگے جھکنا اور ایسا جھکنا کہ نسلوں تک جھکے ہی جانا، اسلام کو ذاتی مفادات کیلیے استعمال کرنا ،پاکستانی معاشرے میں یہ برائیاں اس قدر وسیع پیمانے پر، شاید اسی کی دہائی سے پہلے موجود نہ تھیں کہ یہ مذہبی سیاستدان بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے مخالف کو ووٹ ڈالنا گناہ کبیرہ اور حرام تک کہتے ہوں اور سیاسی مخالفین پر کفر کے فتویٰ جات کا بھی استعمال کرتے ہوں،
فتوے کی بات چھڑ گئی ہے تو یاد آیا کل مریم نواز کو این اے 120 میں جمعیت علمائے پاکستان کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔بے نظیر بے چاری بھی قبر میں پڑی سوچتی ہوں گی آخر میرا ایسا بھی کیا قصور تھا کہ میری حمایت حرام اور مریم کی حلال ہے۔جب سے یہ خبر سنی ہے دل میں ایک ہی خواہش ابھر رہی ہے کاش میں یہ روح پرور نظارہ اپنی آنکھ سے دیکھتا اور حمایت کے اعلان کے وقت ان باریش بزرگ سے پوچھتا کہ حضور مریم نواز اور بے نظیر کی نسوانیت میں کوئی فرق ہے کیا؟
کچھ جماعتیں مذہبی جماعتیں نہیں بلکہ یہ منافقین کی جماعتیں ہیں کیوں کہ مذہب کے اصول پکے ہوتے ہیں ایسے نہیں ہو سکتا کہ بھٹو کی بیٹی کیلیے اور ہوں اور نواز شریف کی بیٹی کیلیے اور....! یہ بھی ممکن نہیں کہ معاشرہ ماڈرن ہوتا جائے تو اصول بھی بدلتے جائیں۔یا تو یہ تب غلط تھے یا آج غلط ہیں۔اور اگر تب غلط تھے تو کم از کم شریعت کے بجائے مفاد پر فتوے دینے پر شرمندگی ہی محسوس کیا کریں۔
Post a Comment