کربلا کا پیغام انسانیت کے نام

کربلا کا پیغام انسانیت کے لئے
تحریر: محمدفیصل
تاسیس کربلا نہ فقط بھر ماتم است
دانش سرائے مکتب اولاد آدم است
تاریخ اس اعتبار سے نہایت بخیل واقعہ ہوئی ہے کہ یہ اپنے دامن میں شاذ و نادر ہی واقعات کو جگہ دے پاتی ہے ورنہ ہر روز نہ جانے کتنے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کوئی ان کا پرسان حال بھی نہیں ہوتا جبکہ کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا تذکرہ سرسری طور پر ہو جاتا ہے اور بس، لیکن اس کے برعکس کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ تاریخ میں شہ سرخی کے طور پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ
"واقعہ کربلا" بھی ہے جو آج بھی اپنی اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے جتنا کل تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جتنا جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے یہ واقعہ اتنا ہی اپنا رنگ گہرا کرتا جا رہا ہے یعنی جس قدر بشریت کی ترقی و عروج کا سفر آگے بڑھ رہا ہے اسی قدر یہ واقعہ اپنی حقانیت ظاہر کرتا جا رہا ہے۔ تبھی تو جوش ملیح آبادی کہہ گئے ہیں کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینّ
آج دنیا میں ایسے افراد بہت کم ہوں گے جو نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالبّ کے نام سے آشنا نہ ہوں۔ دیندار افراد کی تو بات ہی درکنار لادین و لامذہب اشخاص تک امام حسینّ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی جیسے انسان سے لے کر اڈولف ہٹلر جیسے درندہ صفت انسان تک درسگاہ کربلا میں دو زانو بیٹھے نظر آتے ہیں۔
آخر یہ کیسا واقعہ ہے؟۔۔۔اس واقعہ میں ایسی کونسی خصوصیت پوشیدہ ہے کہ زمانے کی گردوغبار اس کی تابناکی کو بوجھل نہیں کر پا رہی ہے؟۔۔۔ اس واقعے میں ایسی کونسی صفت ہے کہ ساری دنیا کسی مذہب وملت کے تعصب کے بغیر اس واقعہ کی گرویدہ ہے؟
اس کا سادہ اور مختصر سا جواب یہی ہے کہ کربلا اس الہٰی درسگاہ کا نام ہے جس نے سسکتی اور مرتی ہوئی انسانیت کو جینے اور عزت کے ساتھ مرنے کا سلیقہ سکھایا، کربلا ایک ایسے آفاقی مکتب کا نام ہے کہ جہاں آکر انسانیت اپنے کمال وعروج تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان مذہب وملت سے ماوراء ہو کر انسان ہونے کے ناطے اپنے اپنے طور پر اس واقعہ کو اپنے لئے نمونہ عمل بنا لیتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس واقعہ کے ذریعہ نواسہ رسول امام حسین کا ہدف اس کے ماسوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے اور اپنے بعد آنے والے معاشروں کی اصلاح فرمائیں تبھی تو فرمایا تھا
"میں اس لئے مدینہ چھوڑ رہا ہوں کہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں"
یعنی امام حسینّ کا مقصد اور ہدف یہی تھا کہ بنی نوع بشر کو اس” مدینہ فاضلہ “ تک لے آئیں کہ جس کی طرف اس نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے سفر شروع کیا تھا لیکن منزل تک آنے سے پہلے ہی منزل گم ہوگئی تھی۔
حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینّ تھے، تو دوسری طرف ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حکمراں یزید پلید تھا۔ حضرت امام حسینّ نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضہ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں کو فروغ دیا اور ایک بار پھر دور جاہلیت کی باطل اقدار کو زندہ کر کے دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اذیت وتکالیف برداشت کی تھیں۔ حضرت امام حسینّ دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہرہ سے شجر اسلام کی آبیاری کی، اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے
"اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے"
نواسہ رسول امام حسینّ یزید پلید کے خلاف اٹھے اور اس طرح اٹھے کہ ایک مختصر عرصہ میں بشریت کو اس مقام پر لا کر کھڑا کردیا کہ جہاں اس کا سر فخر سے بلند تھا اور لبوں پر تبسم نغمہ افشانی کررہا تھا جبکہ دوسری جانب شام کا "سبز محل" کھنڈروں میں تبدیل ہو کر زمانہ کے لئے درس عبرت بن گیا تھا۔ اس لئے خواجہ معین الدین چشتی کو کہنا پڑ گیا کہ
شاہ است حسینّ،بادشاہ است حسینّ
دین است حسینّ دین پنا ہ است حسینّ
سرداد نداد دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسینّ
یہی واقعہ کربلا کا خاصہ ہے کہ روز عاشور حضرت امام عالی مقام حسین بن علی ابن ابی طالبّ نے اپنے چند ساتھیوں کےساتھ ایک ایسا تاریخی انسان ساز انقلاب برپا کیا کہ بادشاہ وقت کے محل میں اتھل پتھل مچ گئی، وہ معیارات و حقائق جن پر وقت کی تیز رفتار آندھیوں نے پردہ ڈال دیا تھا، یک لخت ہٹ گیا۔
کربلا اس انقلاب کا نام ہے جو اپنے بعد رونما ہونےوالے ہر انقلاب اور تحریک کا سرچشمہ ہے۔
کربلا کا اہم ترین درس شہادت، ایثار اور فدا کاری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فقط انسانیت کی بقا کی خاطر کربلا کے تپتے ریگزار میں اپنا بھرا گھر حتیٰ کہ اپنا ششماہی فرزند شہزادہ علی اصغرّ بھی قربان کردیا۔ ایثار، فدا کاری، قربانی وغیرہ یہ وہ اعلیٰ انسانی صفات ہیں کہ اگر کسی معاشرہ یا قوم میں پیدا ہو جائیں تو وہ قوم یا معاشرہ کبھی بھی تاریخ کی اندھیری کوٹھریوں میں دفن نہیں ہوسکتا اور یہی وہ صفات ہیں جن کو امام حسین علیہ السلام نے 61ھ میں بشریت کا خاصہ بنا دیا اور آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا کی بازگشت چہار جانب سنائی دے رہی ہے۔
(جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً) ہی روز عاشور امام حسین علیہ السلام کا پیغام تھا۔
اگر تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایسی نہ جانے کتنی مثالیں مل جائیں گی جن کا سرچشمہ اور منبع واقعہ کربلا ہے۔ یہی کربلا کا ہدف بھی تھا کہ انسان بیدار ہو جائے، مظلوم، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرے، ذلت کی زندگی کے بجائے عزت کے ساتھ مر جانا سیکھے۔ فداکاری، ایثار و قربانی جیسے جذبوں کو اپنے اندر پیدا کرے، پھر فتح اس کی ہوگی جو ان صفات کا حامل ہوگا۔ ظالم یعنی باطل کو ایک نہ ایک دن ماضی کا حصہ بننا ہی ہوتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو واقعہ کربلا ہمیں دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تقریبآ ڈیڑھ ہزار برس گزر جانے کے باوجود کربلا آج بھی زندہ ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اس پیغام کو سننے والے باقی رہیں گے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیریّ
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل یوم یومِ عاشورا و کل ارض ارضِ کربلا


Post a Comment