میرے صیاد
بتا میری رہائی کب ہے؟
(قسط نمبر 1)
جس کی لاٹھی
اس کی بھینس کے قانون پر چلنے والے اس ملک میں کسی مظلوم و مقتول کا سوگ منانا کیا
معنی؟ یہاں صرف حکمران اپنی حدود سے تجاوز کئے ہوئے ہیں یا ہر شخص اپنے اپنے دائرے
میں ایک ننھا منا سا فرعون ہے؟ کس کا گلہ کس سے کیا جائے، جب یہ طے ہی نہیں کہ حق
پر کون ہے، اور ہم جیسے معاشروں میں جیت صرف طاقتور کی ہوتی ہے، وہ کراچی کا شاہزیب
ہو، لاہور کا زین ہو کہ نواز شریف کی گاڑی تلے کچلا گیا حامد ہو یا زرداری کے
پرٹوکول میں رکے رکشے میں جنم لینے والا بچہ ہو، طاقتور مجرموں کو قانونی مصلحتوں
کی ڈھال کے پیچھے پناہ ملتی چلی آئی ہے۔ ہم بحثیت معاشرہ اس وقت تک ہلتے ہی نہیں
جب تک دو چار لاشیں نہ گریں یا کچھ ایسی انہونی نہ ہو جائے کہ مذمت کرنا معاشرتی مجبوری نہ بن جاۓ. لاہور میں
قتل ہو جانے والے نوجوان کی ماں کی صدا اس معاشرے کے منہ پر ایک تھپڑ سے بڑھ کر ہے
کہ میں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا لیکن میں اس اس کا کیس لڑنے کے بھی
قابل نہیں کیوں کہ میری بیٹیاں جوان ہیں، حادثہ، ظلم یا زیادتی کرنے کے بعد پہلے
تو مظلوم کو ہی دبایا جاتا ہے کے کسی طرح اپنی حیثیت، عھدے اور طاقت کا استعمال کر
کے معاملہ ختم کیا جاۓ یا کوئی دو چار لاکھ روپے دے کر ہی منا لیا جاۓ، اگر ایسا
نہ ہو سکے اور مظلوم کسی تھانے کی دہلیز تک چلا جاۓ تو قانون کے محافظ اس مظلوم کو
تحفظ دینے کی بجاۓ اسے سمجھاتے ہیں کے تم جس کے خلاف مقدمہ کروانے کا سوچ رہے ہو
تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، اور اگر بالفرض سارے معملات بشمول وکیل و دیگر
ہو جانے کے بعد کیس عدالت تک پہنچ گیا تو اگلا مرحلہ مزید دشوار کہ اگر کوئی بھلا
انسان کسی حادثے کا چشم دید گواہ ہو تو اس کا جینا بھی مشکل اور گواہ کے لیے دو ہی
رستے ہیں یا تو وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو کر خود بھی نشان عبرت بن جاۓ یا پھر ظالم
کا ساتھی بن کر اس کے حق میں اور اپنے ضمیر کے خلاف عدالت میں گواہی دے، اگر گواہ
کوئی با اثر یا باضمیر انسان ہے تو بھی مجرم کو کوئی فکر نہیں یہاں وکیل ہی نہیں
جج بھی بکتے ہیں حضور، آپ دام دیجئیے کام لیجیے، ہر مال بکتا ہے حضور جو چاہے خرید
لیجیے، گاڑی کی ٹکر کے تنازع پر 16 سالہ طالب علم زین کو قتل کرنے کے الزام میں
سابق وزیر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفیٰ
کانجو کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن تمام ملزمان کو گواہان اور مدعی
کے منحرف ہونے پر بری کیا گیا۔ منحرف ہونے والے گواہان کی تعداد 14 تھی، نجانے ایسے
کتنے کیس ہیں جو میڈیا پر نشر ہوتے ہیں تو
کوئی شخصیت یا ادارہ نوٹس لیتا ہے مگر قانونی بھول بھلیوں سے عام آدمی تنگ
آ کر یا تو کیس چھوڑ دیتا ہے یا طاقتور کی شنوائی اور غریب کی ذلت سے دلبرداشتہ ہو
کر مدعی ہی زہر کھا لیتا ہے، کیا غریب کی عزت و آبرو کا کوئی قانون بھی یہاں نافذ
بھی ہے۔ کیا قانون کی عملداری کے لئے کوئی حکومت کوشاں بھی ہے؟ اس قانون میں امیر
اور طاقتور کے لئے چور دروازے میسر ہیں اس لئے حکمران کبھی اس کو تبدیل کرنے کے
خواہاں ہی نہیں مگر سوال ان لوگوں سے ہے جو ایک عام طبقہ سے اٹھ کر قانون کے قلم
دان کے مالک و مختار بنتے ہیں، کیا ہم یہ دروازہ بھی بند سمجھیں کیا واقعتا انصاف
اس ملک سے رخصت ہو گیا؟ کیا ظالم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں، کلمہ حق کہنے
والوں کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ یہ معاشرہ کب اپنی تعمیر کی طرف توجہ دے گا؟ہمیں یہ
یاد رکھنا ہو گا کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے کچھ قوانین ترتیب دینے ہی ہوں گے۔ جنگل
کا قانون بھی ایک ترتیب رکھتا ہے،مگر مملکت خداداد کا قانون..؟
محمّد فیصل
ہمارا معاشرہ فرعون سے بھی گیا گزرا ہے۔ فرعون تو پھر منصف تھا ، مگر یہاں تو منصف بھی کسی کام کے نہیں
ReplyDeleteرہے قانون ساز ، وہ تو قانون ہی ایسے بناتے ہیں کہ خود بچ نکلیں۔ جس کی بدترین مثال ابھی نوازشریف کو پارٹی صدارت والے قانون کی ہے۔
رہی عدالت عظمی ان کو بھی اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،
Deleteنہ اہل پارٹی صدر، چور ملک کا وزیراعظم، ایک قاتل صوبے کا وزیراعلیٰ
اصل زمہ دار وہ ووٹر ہے جو میرٹ پر تھوکنے کو بھی تیار نہیں،
Post a Comment