میرے صیاد بتا میری رہائی کب ہے، تیسرا سلسلہ

میرے صیاد بتا میری رہائی کب ہے، تیسرا سلسلہ

سلسلہ وار تحریر،
کیا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کے بہت ہو گیا...؟ کیا اب عذاب کا انتظار کیا جاۓ یا مزید ظلم روا رکھا جاۓ...؟ کیا الله کریم کی جباری و قہاری کو دعوت دینے کے لیے ہمارے اعمال کافی نہیں ہیں...؟ پاکستان کا مطلب کیا...؟ یاد ہو گا آپ سب کو..؟ لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر چلنے والے اس ملک میں کسی ایک مظلوم کا سوگ منانا کیا معنی رکھتا ہے..؟ کس کا گلہ کس سے کیا جائے، جب یہ طے ہی نہیں کہ حق پر کون ہے، اور ہم جیسے معاشروں میں جیت صرف طاقتور کی ہوتی ہے، کمزور کے لئے ایک ہی قانون رائج ہے جو اقبال نے یوں بیان کیا تھا کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
وہ کراچی کا شاہزیب ہو یا لاہور کا زین،
طاقتور مجرموں کو قانونی مصلحتوں کی ڈھال کے پیچھے پناہ ملتی چلی آئی ہے۔ ہم بحثیت معاشرہ اس وقت تک ہلتے ہی نہیں جب تک دو چار لاشیں نہ گریں یا کچھ ایسی انہونی نہ ہو جائے کہ  مذمت کرنا معاشرتی مجبوری نہ بن جاۓ، لاہور میں قتل ہو جانے والے نوجوان کی ماں کی صدا اس معاشرے کے منہ پر ایک تھپڑ سے بڑھ کر ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا لیکن میں اس اس کا کیس لڑنے کے بھی قابل نہیں..! ایک کرپٹ باپ کا غلیظ بیٹا سر راہ ایک لڑکی کو چھیڑتا ہے، بھائی اپنی بہن کی حفاظت کرتا ہے اور چھیڑنے والا سرعام اس لڑکے کو گولیوں سے  بھون کر نکل جاتا ہے، قانونی پیچیدگیاں میں نہیں جاتنا مگر سارا پاکستان اس کی پھانسی کا انتظار کرتا ہے، یہ بےغیرت قاتل عدالت میں جا کر وکٹری کا نشان بناتا ہے، مقتول کے ورثا پر دباؤ ڈال کر قتل کی دھمکیاں دے کر معافی نامے پر دستخط کرواۓ جاتے ہیں، پھر 5 سال جیل میں عیاشیاں کی جاتیں ہیں اور آخر کار ٢٢ کروڑ لوگوں کے منہ پر تھوک کر رہا ہو جاتا ہے، شاہ رخ جتوئی کا وکیل لطیف کھوسہ تھا، آیان علی کا وکیل بھی وہی تھا. دونوں کیسز میں بھٹو کی پیپلز پارٹی ڈائریکٹ شامل ہے.. امید ہے آپ ڈاکٹرعاصم، حامد سعید کاظمی کو بھی نہی بھولے ہوں گے.. اگلی باری اب عزیر بلوچ کی ہے. روک سکتے ہو تو روک لو،
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
کیا یہ  قتل اور ظلم کا پہلا قصہ ہے جو چند دن اخبار کی سرخیوں یا بریکنگ نیوز پر لوگوں کا لہو گرماتا رہے گا؟ ہر موسم میں ایسے درجنوں واقعات لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کرتے ہیں مگر چائے کی پیالی کا یہ طوفان کسی بھی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتا.
ان سب مسائل کا حل بس قانون کی حکمرانی ہے، قانون جو سب کے لئے برابر ہو، جس کے شکنجے سے کوئی بچنے نہ پائے، کیا غریب کی عزت و آبرو کا کوئی قانون یہاں نافذ بھی ہے.  کیا قانون کی عملداری کے لئے کوئی حکومت کوشاں بھی ہے؟
ہاں تسلیم ہے کہ اس قانون میں امیر اور طاقتور کے لئے چور دروازے میسر ہیں اس لئے وہ کبھی اس کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہی نہیں مگر سوال ان لوگوں سے ہے جو ایک عام طبقہ سے اٹھ کر قانون کے قلم دان کے مالک و مختار بنتے ہیں، کیا ہم یہ دروازہ بھی بند سمجھیں کیا واقعتا انصاف اس ملک سے رخصت ہو گیا؟

کتنے لوگوں کی لاشیں اور لہو یہ سمجھانے میں صرف ہوں گی کہ صرف اور صرف قانون کی بالادستی اس ملک کے مسائل کا حل ہے.
  اورایسا قانون جو سب کے لئے برابر ہو، ایسا قانون جو کتابوں کے علاوہ میدان عمل میں بھی موجود ہو

محمّد فیصل

Post a Comment