میرے صیاد بتا میری رہائی کب ہے؟ دوسرا حصہ
ملکی معیشت ایک زندہ
جسم کی مانند ہوتی ہے جس میں زراعت، صنعت و تجارت، ذرائع آمدورفت و دیگر شعبہ جات
شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر
ایک زرعی ملک ہے اور آبادی کا تقريباً 60 فیصد حصہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ اس
اعتبار سے پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔اس کے باوجود ملک کے زرعی
شعبے کی ترقی کی رفتار اور حکمرانوں کی ترجیحات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ زراعت
ہماری معیشت کے لئے لائف لائن ہے. اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے
تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے کھاد، بیج، پیسٹی سائیڈ کی
قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ، پانی کی قلت ، مہنگی بجلی اور پیداوار کا معقول
معاوضہ نہ ملنے سے کسانوں کے حالات بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج انہی خراب
حالات کی وجہ سے کسان سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں. آج کل بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا
ہے کہ کسان اپنی تیار فصل کے ساتھ سڑکوں پے احتجاج کر رہے ہیں، پورا سال محنت کر
کے فصل تیار کرنے والوں کو جب طے شدہ معاوضہ نہ دیا جاۓ تو کیا وہ احتجاج نہیں کرے گا..؟ آج کل الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا
پر زیر نظر تصویر جیسے مناظر ہی دیکھنے کو ملیں گے کہ احتجاج کرنے والوں کو سڑکوں
پر پیٹا جا رہا ہے، روشن پاکستان کے دعوے دارو کیا کوئی انسانیت باقی رہ گئی ہے؟
کسان اب اپنے ہاتھ سے
اگائی ہوئی فصل کو آگ لگانے کے لیے تیار ہیں، حکومتی چمچے کب سمجیں گے کہ ہمیشہ
حکومت ہی درست نہیں ہوتی، ان چمچوں کو کبھی کبھی حق کا ساتھ بھی دینا چاہیے، کیوں
کے شوگر مل مالکان کی اکثریت اس وقت قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے، خواہ
وہ حکومتی جماعت ہو یا اپوزیشن میں بیٹھنے والے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی تو پھر
کسی کی اتنی جرات کہ اپنا مال ہمیں ہماری مرضی کی قیمت پر نہ دے، احتجاج کرنے والے
کسانوں کو مارو اس عورت اور بابے کو اور مارو،ان کیڑے مکوڑوں کی اتنی جرات کہ خود
کو انسان سمجھیں، نیچ لوگ، گھٹیا لوگ، مارو ان دو کوڑی کے کسانوں کو ہاں ووٹ لینا
ہوا تو اس مائی کو ماں بھی بنا لیں گے بابے کے پاؤں بھی پڑ لیں گے پر ابھی تو ان کو
مارو کیوں کہ الیکشن ابھی دور ہیں،
سنگین جرائم میں ملوث
مجرموں کو اگر ایسی سزا دی جاۓ
کہ وہ
نشان عبرت بن جائیں تو شاید معاشرے میں جرائم کم ہو سکتے ہیں لیکن کوئی
بھی جرم کرنے والا جانتا ہے کہ پہلے تو کسی میں جرات نہیں کے مجھے پکڑ سکے اور اگر
قابو آ بھی گیا تو چند ہزار، یا چند لاکھ قانون کو پیش کر کے نکل جاؤں گا، یہی
ذہنیت وجہ بنتی ہے ایسے جرائم کی جن سے انسانیت بھی شرما جاۓ. گزشتہ روز قوم کی ایک
اور بیٹی روشن پاکستان کے درندہ صِفت انسان کی ہَوس کی نظر ہو گئی، رینالہ خورد نواحی
گاوں گیارہ ون اے ایل میں ایک دن قِبل اغوا ہونے والی چھ سالہ بچی کو ذیادتی کا
نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا پولیس نے ایک خنزیر کو گرفتار کر لیا جبکہ
دوسرے حرامخور کی تلاش جاری ہے، اب آ جاۓ
گا کوئی اور سیاسی اثر و رسوخ والا سفارشی اور مجرموں کی ضمانت بھی ہو گی، تھانے داروں
کو چاۓ پانی بھی ملے گا، وکٹری کے نشان بھی بنیں گے، تھانوں اور کچہریوں میں حرام کا
پیسہ بھی چلے گا، گواہ بھی اپنی قیمت وصول کریں گے، لیباٹری والے بھی جام کے ساتھ تکے
کباب کھائیں گے اور مقدمہ کی طوالت کی وجہ سے مدعی کی تذلیل بھی کی جاۓ گی، وزیراعلی صاحب قوم
کی ایک اور بیٹی آپ کے پانچ لاکھ والے چیک کی منتظر ہے، جائیے چیک دیجئیے فوٹو
بنوائیے اور اگلے واقع کا انتظار کیجئیے.
محمّد فیصل
محمّد فیصل
Post a Comment