کہانیاں
آج کچھ کہانیاں ہی لکهنی ہیں جن سے عقلمند پاکستانی خود ہی سبق لیں گے مگر عرض ہے کہ کہانی کو صرف کہانی نہ سمجھیں.
پہلی کہانی...........
عبدالرحیم خان خاناں، اکبر کو اکبر بنانے والے بیرم خان کا بیٹا اور شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نورتنوں میں سے ایک تها. خانخاناں سخاوت میں خاتم طائی سے کم نہ تها مگر عادت یہ تهی کہ ضرورت مندوں اور محتاجوں میں مال و دولت تقسیم کرتے وقت نگاہیں جهکا کے رکهتا ایک بار کسی نے سبب پوچھا تو اس نے کہا-
"دینے والا دیوت ہے دیوت ہے دن رین
لوگ بهرم مجھ پر کریں سو نیچے رکهوں نین"
یعنی وہ خود کو دینے والا نہیں اس کا فقط وسیلہ سمجهتا تها اس کی عزت و غیرت کو یہ بهی گوارا نہ تها کہ لینے والے کی آنکهوں میں ممنونیت کے جذبات ہی دیکهے- اور اب ذرا ان حکمرانوں کا تصور کریں جو ذاتی نہیں سرکاری اور فلاحی اداروں کی رقوم کے چیک بانٹتے ہوئے تصویریں اور ویڈیوز بنواتے ہیں مگر رتی برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے اور پوری ڈھٹائی اور بے غیرتی و بے حیائی کے ساتھ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی عزت نفس کو پامال کرتے ہیں.
دوسری کہانی............
واثق باللہ نے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور جب مرنے لگا یعنی نزع کی کیفیت طاری ہوئی اس کے وزیر نے خلافت شاہی کی خصوصی چادر جو اس نے اوڑھ رکهی تهی ہٹائی کہ دیکهے زندہ ہے یا مر گیا ہے تو واثق نے یوں آنکھیں اٹھا کے قہر و غضب سے دیکھا کہ وزیر اس حال میں بھی لڑکھڑا کے پیچھے جا پڑا یعنی اسوقت بھی اسکی آنکھوں میں اتنی طاقت تھی. پهر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ چادر اٹها کر دیکهے. تھوڑی دیر بعد چادر کے نیچے حرکت ہوئی تو بھاگ کر گئے کے یہ کیا حرکت ہے....؟ چادر اٹھا کے دیکھا تو وہ مر چکا تھا اور ایک چوہا اسکی دونوں آنکھیں کھا چکا تھا یہ چوہا کہاں سے آ گیا عباسی محل میں..؟ اک درویش سے پوچها تو اس نے بتلایا کہ ان ظالم آنکھوں سے کیا کیا ہوا ہے. موت سے پہلے ہی ایک چوہے کو کھلا کے دکھا دیا گیا..... اور جونہی وہ مرا تو وزیر نے فورا" خلافت کی مخصوص چادر اتار کر صندوق میں ڈالی کہ اب اگلا آنے والا خلیفہ میری ہی ٹھکائی نہ کردے کہ یہ چادر اس پر کیوں ڈالی ہوئی ہے. یہ دنیا اتنی ناپائدار ہے اتنی نامراد اور مختصر ہے.
اب آئیے وقت کے فرعونوں کی طرف جو ووٹ لیکر صرف 5 سال کے لیے حاکم بنتے ہیں اور یہ سمجهتے ہیں کہ ان کے اقتدار کو ہمیشہ دوام رہے گا. اور ہوس اقتدار میں معصوموں اور بے گناہوں کے گلے کاٹنے سے بهی نہیں کتراتے.
تیسری کہانی.............
خلیفہ ہارون الرشید سے پوچها گیا کہ کہ بار حکومت کیا ہے تو جواب ملا "مخلوق خدا کی خدمت"
اور ہمارے سیاستدانوں میں "مخلوق خدا کی خدمت" کا جزبہ اسقدر ہے کہ کروڑوں اربوں روپے خرچہ کر کے الیکشن کمپن کرتے ہیں کرسی اقتدار پر قابض ہو کر "خدمت" کرتے ہیں. کیا ان سے کوئی نہیں پوچهتا کے خدمت کے لیے اقتدار ہی کیوں ضروری ہے؟ خدمت کے لیے اقتدار؟ یا اقتدار کے لیے خدمت؟ اور خدمت کس کی؟ خود سوچیں
چوتهی کہانی..........
سکهدیو اپنے باپ کے حکم پر گیان یعنی علم آگاہی حاصل کرنے راجہ جنک کے پاس پہنچا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر شک میں مبتلا ہو گیا کہ یہ تو خود ہی دنیا کے آرام و آسائش میں مبتلا ہے اس سے "گیان" کیا خاک ملے گا. راجہ جنک نے کٹورا دودھ کا منگوا کر سکهدیو کے ہاتھ میں تهما دیا ساتھ میں مسلح سپاہی دیئے اور ان سپاہیوں سے کہا کہ "سکهدیو کو راگ رنگ، کهیل تماشے کی مختلف محفلوں میں لے جاؤ شہروں کی رونقیں دکهاو مگر پیالے سے ایک قطرہ دودھ بهی گرے تو اسی وقت اس کی گردن اڑا دینا" سپاہیوں کا دستہ سکهدیو کو رنگ و نشاط اور رقص و سرور کی مختلف محفلوں میں لیے پهرا شام کو جب واپس راجہ جنک کے پاس پہنچے تو راجہ نے پوچها کہ دودھ گرا تو نہیں....؟ سپاہی نے کہا کہ دودھ گرا ہوتا تو سکهدیو زندہ نہ ہوتا. اب راجہ نے سکهدیو سے پوچھا کہ امید ہے کہ خوب لطف اندوز ہوئے ہو گے تم، وہ بولا "راجہ صاحب مجهے تو پیالے نے ادهر ادهر دیکهنے ہی نہیں دیا" راجہ بولا تو جس طرح تمہارا ایک دن گیا ہے میری پوری زندگی اسی طرح بیت رہی ہے تم میری سلطنت و حکومت، دولت و ثروت پر نہ جاو. ملک و دولت کو سپاہی سمجهو، تن کو کٹورا اور من کو دودھ جانو اور سلطنت کو سیر و تماشہ نہیں بلکہ امتحان سمجهو.
لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور ہم جیسے محکوموں کے لیے ان کہانیوں میں کوئی سبق موجود نہیں.
معذرت کے آپ کا قیمتی وقت ان کہانیوں میں برباد کیا...
محمد فیصل
یہ کالم پہچان ٹی وی کے اس لنک پر بھی ہے
کہانیاں
Post a Comment