اب ان کے نوحے نہ لکھو،


اب ان کے نوحے نہ لکھو،

یہ سچ ہے کہ ہم اُس وقت تک زندگی کی رعنائیوں میں گم رہتے ہیں جب تک کہ ہمیں کوئی خواب غفلت سے جگانے والا نہ ہو یہ احساس دلانے والا نہ ہو کے بحیثیت انسان بھی ہماری کوئی ذمہ داری ہے. یہ احساس کی بات ہے ، انسانیت کی بات ہے لوگوں کے دکھ محسوس کرنے کی بات ہے. اخبارات، رسائل و جرائد میں قاری اکثر نظام تعلیم کی بدحالی نیز لاوارث و بے یارومددگار بچوں کے متعلق کالمز اور اسپیشل ایڈیشن وغیرہ پڑھتے رہتے ہیں. حکومتی سطح پر ان مسائل کے حل کی غیر سنجیدہ کوشش کے باعث معاشرے کے کچھ ہمدردوں نے اپنے طور پر اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور سسکتی بلکتی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اپنی سی کوشش کی،
میں بھی انہی خیالات کو الفاظ بدل بدل کر کئی بار لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے تقریبا سارے بڑے بڑے کام چھوٹے چھوٹے علاقوں کے چھوٹے چھوٹے پیشوں سے تعلق رکھنے والے غریب والدین کے عام سے بچوں یا پھر یتیم بچوں نے کئے ہیں. دنیا میں بہت بڑے بڑے کاموں کا تعلق نہ تو غیر معمولی ذہانت سے ہے نہ دولت سے نہ بڑے خاندان سے نہ پڑھائی میں پوزیشن لینے سے ہے، بل گیٹس ہو یا ایڈیسن و آئن سٹائن ان میں سے کون اسکول کا اچھا طالبعلم تھا..؟ ویسے بھی وطن عزیز پاکستان کا جدید تعلیمی نظام تو دنیا کے لئے جدید سوٹڈ بوٹڈ غلام اور کمی کمین پیدا کرنے کا سائنسی اور ماڈرن طریقہ ہے اور ہم سب اس کے ہاتھوں مجبور. یہ سسٹم تو بس "ڈسپلن"کے نام پر بے عقل فرمانبردار، خوفزدہ اور آزادی فکر سے محروم نسل تیار کرنا چاہتا ہے یہ دماغ کو ایسے سانچوں میں ڈھال دیتا ہے جس کے بعد کوئی اس سے باہر نکل کر سوچنے کے قابل ہی نہ رہے کوئی باغی پیدا ہی نہ ہو...! اور ایسا اس لئے کرتا ہے کہ اسے آزاد سوچ والے اور غیرت مند لوگ نہیں بس احمق "کنزیومرز" درکار ہیں.
حال ہی میں رکن قومی اسمبلی جناب شہریار آفریدی سے ملاقات ہوئی میں نے اپنے انہی خیالات کا اظہار کیا تو کہنے لگے، چھوڑو یار ان پیاروں کے لئے پریشان نہ ہوا کرو، بس ان میں سے جتنوں کو خواب دے سکو دے دو ان کو امید اور حوصلہ دے دو ان میں فوکس اور محنت و لگن پیدا کر دو ان کو اپنے محبت کرنے والے رب اور رسول صلی الله علیہ وسلم سے کسی طرح جوڑ دو اور چھوڑ دو یہ تمہیں مایوس نہیں کریں گے. اگر ٹوٹی جوتیاں اور پھٹے لباس راستوں کی رکاوٹ ہوتے تو بھوک سے تڑپتے عظیم اصحاب صفہ آج دنیا کہ استاد و امام نہ ہوتے، عبدالقدیر خان ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھے نہ ہوتے. کبھی کبھی زندگی کی سختیاں ہی تو انسان کو نمایاں اور سخت جان بناتی ہیں اور ہاں ہر قطرہ گوہر نہیں بنتا ہر پتھر ہیرا نہیں ہوتا اس لئے ان میں سے شیر ڈھونڈو، ہیرے تلاش کرو اور انہیں تراش کر کچھ بنا دو، کچھ اور ممکن نہیں تو اپنے ڈرائنگ رومز ہی کو گھر کے باہر ایک بورڈ لگا کر کونسلنگ سینٹرز بنا ڈالو اور اہل نظر، و اہل علم لوگوں کو استاد...! خود سنو، سیکھو اور مفت میں کچھ وقت دے کر امیدیں، حوصلہ، اور خواب بانٹو...! شکوے چھوڑو کام شروع کرو...!
ان کے کپڑوں جوتوں اور کھانے کی فکر چھوڑو یہ جی لیں گے بس ان کے ذہنوں پر کام کرو ان کے لئے وقت و صلاحیت کا صدقہ دو یہ دنیا جیت سکتے ہیں...! اس سے بھی بڑا خواب ایک پاکستانی نے دیکھا کہ تعلیم کے ساتھ ان کی افلاس بھی ختم کرو اور یہی سوچ کر اس پاکستانی نے زمونگ کور کی بنیاد رکھی، جہاں زندگی کی ہر سہولت کے ساتھ ان بچوں کو علم کے نور سے منور کیا جا رہا ہے، اور یہی سوچ لے کر نمل نالج سٹی کا آغاز کیا گیا.

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

محمّد فیصل





Post a Comment