پردیسیوں کی اداس عیدیں

اداس عیدیں۔

میں کویت میں بسنے والا ایک عام سا پردیسی ہوں جو چند سال پہلے وطن سے نکلا۔ جس کے سبھی اپنے پاکستان میں بستے ہیں اور آج اس پردیسی کا یوم عید ہے۔ پردیس میں گزرنے والا دسواں یوم عید الفطر۔
ایسی عیدیں جن کی چاند راتیں کام سے واپسی پر راستے میں گزریں، نماز عید کے اجتماع کے علاوہ کوئی کام نہیں اور پھر ہوٹل کا کھانا اور پھر سو جانا۔ شام کو چند دوستوں سے ملاقات کرنا دوسرے دن جب اپنے وطن میں عید ہو اجنبی راستوں پر چلتے چلتے اپنے پیاروں سے فون پر بات کرنا۔ اگر موقع ملے تو کسی دوست کی طرف چلے گئے، اس سے کسی من پسند کھانے کی فرمائش کر لی یا اس کی پسند کا کچھ بنا لیا۔۔۔۔اور بس۔۔۔
بس ایسی روکھی، بے رنگ اور بے جان ہوتی ہے پردیس کی عید، نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوئے، نہ گلی کے بچوں نے شور مچایا، نہ کسی نے گلی کے موڑ پر ٹھیلا جمایا، نہ کسی اجنبی نے گلے لگایا، نہ آنگنوں میں جھنڈیاں سجیں، بس ایک عام سا دن ہے عید کا جو آیا اور مزید اداس کر کے چلا گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ عید کا اداسی سے کیا تعلق ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں دیس میں تھا تب بھی عیدیں اداس ہونے لگ گئی تھیں۔ جب عمر بیس برس سے کچھ اوپر ہوئی تو عیدین میں وہ خاص خوشی نہ رہی۔ بس یہ کہ اٹھے ، نماز عید پڑھی، محلے کے لوگوں سے ملے، عید کے جھپے بانٹے اور وصول کئے اور گھر کو آ گئے۔ ٹی وی دیکھا، کچھ رنگ برنگا کھانا کھایا، کوئی ملنے چلا آیا، کسی کو ملنے چلے گئے اور بس۔۔۔ لیکن پچھلی بہت سی عیدوں میں سے عید کا دن ڈھونڈنے بیٹھا ہوں تو مجھے یاد نہیں کہ کس برس "عید" منائی تھی۔ شاید انہی دنوں کو عید کہہ سکتا ہوں جو میرے بچپن کے دن تھے، جب چاند رات کو ہم گھر کی چھتوں پر چڑھ کر عید کا چاند دیکھنے کی کوشش کیا کرتے اگر چاند کا اعلان ہو جاتا تو لڑکے گلیوں میں کھیلتے، لڑکیاں مہندی لگاتیں، نئے کپڑے، نئے جوتے، عیدی، سویاں، بزرگوں کا پیار ہی پیار۔ شاید انہی چند سالوں میں ہم نے عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بہت باریک سا، نازک سا، بالکل کسی شاعر کے محبوب سا، آج کے دور میں جب سے چاند دیکھنے کی ذمہ داری رویت ہلال کمیٹیوں نے لی ہے لوگ چاند اب بس کھڑکیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں۔
اگر آپ نے کبھی عید کا چاند اپنی آنکھوں نے دیکھ رکھا ہے تو آپ عید کی خوشی کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بس یہ کہ کسی بچے بوڑھے کو چاند کی ایک ہلکی سی لکیر دکھائی دیتی اور وہ دور آسماں میں کسی طرف اشارہ کرتا، لوگ اس کی نگاہوں اور انگلیوں کے تعاقب میں آسمان پر نظریں دوڑاتے اور چاند نظر آجاتا تو سبھی کو لگتا کہ آج تو چاند صرف اسی کے لئے نکلا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن کی ہر عید نئے کپڑوں کے ساتھ ہی گزری ہو، یہ بھی یاد نہیں کہ کسی ایک عید پر ہم نے ڈھیروں عیدی اکھٹی کی ہو لیکن اتنا یاد ہے کہ ان عیدوں میں ایک خوشی تھی ایک انجانی خوشی، جو بیان سے باہر ہے۔ وہ کس چیز کی خوشی تھی اب تک اس کی وجہ ڈھونڈھ نہیں پایا۔ محلے کا حلوائی جلیباں تو سارا سال نکالتا تھا، لیکن عید کے روز کچھ زیادہ، میناری کی دکانیں بھی سارا سال کھلتی تھیں لیکن عید پر کچھ کھلونے زیادہ ہوتے تھے کچھ موسمی سے دکاندار بھی عید بنانے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے سے سجا لیتے تھے لیکن اس دور میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور تھا جس جذبے کو خوشی کہا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے خوشی شاید بے فکری کا نام ہے۔ جو صرف بچپن میں تھی اس لئے جوں جوں فکر مندی کی دہلیز پار کی خوشی کم ، مزید کم ہوتی چلی گئی اور آج جب عید منانے بیٹھا ہوں تو دل پر ایک بوجھ سا ہے، اپنے دیس سے جدائی کا دکھ، اپنے دوستوں سے دوری کا دکھ، زندگی میں بہت آگے نہ بڑھنے کی کسک، اپنی زندگی کی بے مائیگی کا دکھ، اپنے باپ کے بچھڑ جانے کا زندہ ہوتا احساس، اپنے بھائی بہنوں سے، اپنی ماں سے دوری کا احساس، پاکستان کے حالات ابتر ہوتے جانے کا دکھ، وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دینے والے شہیدوں کے اجڑے گھرانوں کا دکھ، چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کا دکھ، نئے کپڑے نہ ملنے پر زندگی ہار دینے والوں کا دکھ، بس ایسا لگتا ہے جیسے دکھ ہی ہیں میرے آس پاس، سچ پوچھئے تو میرا دل چاہتا ہے عید منانے کو، ایسا دن جو فکروں سے آزاد ہو، ایسا دن جس میں آپ کے زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کے پاس ہوں، دوستو اگر آپ اپنے عزیزوں کے درمیان موجود ہیں، دیس کی گلیوں میں بستے ہیں، دوستوں کی محفلیں میسر ہیں، والدین کا سایہ سر پر سلامت ہے، بہن بھائی ابھی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تو عید منانے کے لئے اس سے اچھا دن نہیں آنے والا، اگر کوئی روٹھا ہے تو اس کو منا لیجئے، کوئی دور ہے تو اس کو پاس بلا لیجئے، زندگی خرابی در خرابی کے راستے پر چل رہی ہے، ان نعمتوں کی قدر کیجئے جو آپ کے پاس ہیں، ورنہ عیدیں اداس در اداس ہوتی جائیں گی۔۔۔


محمد فیصل

Post a Comment