خیال چوروں کی چاندی

خیال چوروں کی چاندی 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا نے سینکڑوں لوگوں کو اظہار رائے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، میرے جیسے وہ درجنوں لوگ جن کے خطوط اور تحاریر اخبارات کے ایڈیٹرز کی ردی کی ٹوکریاں بھرا کرتے تھے آج سوشل میڈیا کی بدولت ان کو پڑھنے والے ہزاروں ہیں۔ لیکن جہاں ٹیکنالوجی نے آسانی کی وہیں خیال چوروں کی بھی چاندی ہو گئی، چلیں خیال چوری کو تو جناب سیف صاحب کے اس شعر کی آڑ حاصل ہے کہ،
سیف انداز بیاں بدل جاتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی نہیں
مگر اس کا کیا کیا جائے کہ لوگ دھڑلے سے کسی کی تحریر اٹھاتے ہیں اور اپنے دوست احباب کے سامنے لکھاری کا نام کاٹ کر ایسے انداز میں پوسٹ کر دیتے ہیں کہ لوگوں کو گماں ہوتا ہے کہ یہ تحریر "حضرت صاحب" نے ہی لکھی ہے۔ ہمارے غریب لکھاریوں کی تحریروں کا حال غریب کی بیٹی اور کمزور کی بیوی جیسا ہوتا ہے، کوئی منظم پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے لکھنے والوں کا احتجاج کہیں درج نہیں ہوتا۔ ابھی پچھلے دنوں ہمارے پیارے دوست رضوان بھٹی کی تحریر ملک خداداد کے نامور صحافی اور کالم نگار نے اپنے نام سے چھاپ ڈالی۔۔۔ خدا جانے لوگ کیوں مصنف کا نام لکھنے سے ڈرتے ہیں، کچھ لوگ تو کہتے ہیں مصنف کا نام اس لیے نہیں لکھا کہ عوام یہ نہ سمجھے کہ کسی خاص فرد کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔  سوال یہ ہے کہ کیا مصنف کا نام ہٹا کر ماخوذ کے پردے پیچھے چلے گئے تو کیا آپ کا فرض ادا ہو گیا۔۔۔؟ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لکھنے والا بھی اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے لکھتا ہے، میں خود ایسی ادبی دہشت گردی کا بارہا شکار ہوا ہوں اور آج یہ کہنا چاہتا ہوں کے میرے قلم کی روشنائی کسی سیٹھ کی طرف سے دی گئی تنخواہ، عطاء یا انعام سے نہیں خریدی گئی۔ لکھنے والے کو اس کی محنت تب وصول ہوتی ہے جب پڑھنے والے اس کو پسندیدگی کی سند دیتے ہیں۔ مگر جب ایسا ہو کہ لکھنے والے سے اس کا اعزاز بھی چھین لیا جائے، تحریر کی ملکیت ہی بدل دی جائے، جانتے بوجھتے مصنف کو بے نام کردیا جائے اور لکھنے والے کی محنت اسے وصول نہ ہونے دی جائے تو اس سے بڑھ کر ادبی ڈاکہ زنی کی واردات کیا ہو گی۔۔؟

محمد فیصل

Post a Comment