ابھی دو مہینے پہلے پاکستان میں تھا تو بک اسٹال سے ایک میگزین خرید لیا لیکن پڑھ نہ سکا، کل شب کتابوں کی الماری کھولی تو وہی دو ماہ پرانا ہفت روزہ میگزین ہاتھ لگا تو ورق گردانی کرتے ہوئے یہ خبر پڑھی کہ ویٹرنری اسسٹنٹ نے اپنے آفیسر کو اس لئے قتل کر ڈالا کہ اس نے اس کے خلاف کچھ رپورٹ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ماتحت کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ یہ خبر ایک عام سے اخبار اور عام سے میگزین کی خبر ہے مین سٹریم میڈیا میں اس کو اتنی کوریج نہیں ملی کہ لوگ اس مظلوم کی حمایت کے لئے اکٹھے ہوتے۔ مقتول کی عمر اور تصویر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاید ابھی اسے نئی نئی نوکری میں ملک کو سنوارنے اور پرانے نظام کو تبدیل کر دینے کی خواہشیں بدرجہ اتم موجود ہوں اور وہ ابھی نمک کی کان میں نمک نہیں ہوا ہو گا۔ اس کی بات پڑھتے پڑھتے مجھے اپنے شہید بھائی مرزا ثاقب کی یاد آ گئی الله اکبر کیا باغ و بہار شخصیت تھا جو مورخہ ٢٣ جولائی ٢٠١٨ کو صرف اس لیے ناحق قتل کر دیا گیا کہ معاشرتی ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا تھا. جس سے برداشت نہ ہوتا کہ کسی فرد کے ساتھ اسی کا کوئی اپنا ظلم کرئے یا اس کا حق مارے. شاید وہ بھی اس نمک کی کان میں نمک نہیں ہوا تھا، ظلم دیکھ کر چپ رہنا وہ کبھی سیکھ ہی نہیں سکا، کیا کسی کو قتل کرنا کوئی اتنا معمولی کام ہے کہ اس کے لیے ایک لمحہ بھی سوچنا گوارہ نہیں کیا جاتا؟
کسی کو معمولی رنجش پر جان سے مار دینا لوگوں کے لئے ایک معمولی اور عام سا کام ہے؟ شاید چند سال پہلے اخبار کے ایک تراشے پر لکھا ہوا تھا کہ مشہور شاعر محسن نقوی کے قاتل نےکیا انکشاف کیا تھا اس نے یہ کام فقط تین ہزار روپے کے عوض کیا تھا۔ شاید پندرہ بیس سال پہلے کے تین ہزار آج کے پچاس ہزار کے برابر ہوں، لیکن کیا کسی ذاتی رنجش کی بنا پر اپنے انتقام کی آگ میں اس قدر اندھا ہو جانا اور اخلاقیات، اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ دینا ہمارے معاشرے کا وطیرہ ہے؟
لیکن ایسے ظالم معاشرے کو کون سمجھائے، ہاں مذہب سے لگاو میں وہ طاقت ہے کہ جو انسان کو سمجھا سکتی ہے کہ بہترین وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہیں، ہاں تعلیم میں وہ طاقت ہے جو انسان کو یہ شعور بخشے کہ اس کے انتقام کی حد کہاں تک ہے۔ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے یا اگر ہمیں کوئی ظلم کرنے سے روکے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے مخالفین کے لئے خود ہی سزا تجویز کرتے پھریں۔
یہ سوال میں اپنے قارئین سے کرتا ہوں کہ کیا ہمارے ہاں مذہب ناکام ہو گیا ہے یا تعلیم بے سود ہو چکی کہ ہم زمانہ جاہلیت کے انتقام کی کہانیاں دہرانے لگے ہیں، جس میں اپنے دشمن کا کلیجہ چبائے بغیر سکون نہیں ملتا۔ خدا تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں یہ شعور دے کہ معاف کردینے والا ہی افضل ہے۔
محمّد فیصل
میرے خیال میں ہمارے ہاں تربیت کی شدید قلت ہے ۔ اگر کوئی پڑھ لکھ بھی جائے تو جاہل کا جاہل رہتا ہے تعلیم کو صرف حصول رزق ، کمائی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے ۔ جب کمائی ہی مدنظر ہوگی تو پھر جائز ناجائز کون دیکھتا ہے ۔
ReplyDeleteاور جہاں تک مذہب کی بات ہے ، ہمارے ہاں سکھایا ہی یہ جاتا ہے کہ بیٹا جو تیرا عقیدہ ہے نا ، یہی ٹھیک ہے اور صرف تو ہی جنت جائے گا ۔ باقی سب کافر ہیں ۔ عدم برداشت ہمارے معاشرے کا خاصہ بن چکا ہے ۔
آخری چیز قانون پر کوئی عملدرآمد نہیں ۔ جب لوگوں کو پتہ ہے کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو کیوں کسی کا خوف کریں گے؟
فیصل بھائی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رشوت کا عام ہونا
ReplyDeleteتعلیم اور شعور کی کمی
اور انصاف کی فراہمی کی عدم موجودگی نے ہمیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے
عدم برداشت معاشرے میں عام ہو
گئی ہے اور یوم سزا و جزا پر پر ہمارا لفظی(فقط الفاظ کی حد تک) یقین ہمیں تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے
Post a Comment