میں بھی مسلمان ہوں، تصدیق کر دیجیے

مجھے ہے حکم اذاں

عجیب سے مناظر نگاہوں سے گزرے، سپریم کورٹ کا ایسا فیصلہ کہ جس نے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑا دیں، جہاں ہم جیسے لوگ عدالت عالیہ کے اس فیصلے پر حیران و ششدر تھے، افسردہ و رنجیدہ ہیں وہیں کچھ بدبختوں نے اس فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا. ہم لوگ حیران و پریشان تھے کہ ایسا کیس جس کا فیصلہ ملک خداداد کی دو معزز عدالتیں دے چکی ہیں اور دونوں عدالتوں نے مجرمہ کو سزاۓ موت دی اور برقرار رکھی پھر یہ کیسے ہوا کہ اچانک ٩ سال بعد پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے اس مجرمہ ملعونہ کو کیسے بری کیا؟فیصلے کی کاپی ہاتھ آئی تو یہ خدشہ بھی یقین میں بدلنے لگا کہ آج بھی ہمارا عدالتی نظام موم کی وہ ناک ہے جس کو چند ضمیر فروش گواہ اپنی مرضی کے مطابق نہ صرف موڑ سکتے ہیں بلکہ اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کر سکتے ہیں. چند ہی لمحوں میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ترجمان کی طرف سے سوشل میڈیا پر خبر ملی کہ سارا ملک جام کیا جا رہا ہے تمام مسلمان گھروں سے نکلیں اور نظام زندگی کو مفلوج بنانے میں اپنا کردار ادا کریں. یہ ایک اور حیرت تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں مسافر راستوں میں، بچے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قید ہو گئے. ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی بھی چاندی ہو گئی اور وہ شر پسند عناصر بھی اپنا کھیل کھیلنے کے لیے میدان میں آ گئے. پھر مذہبی سیاسی جماعت کے قائد کا بیان لوگوں کا لہو گرمانے لگا کہ فیصلہ دینے والے جج واجب القتل ہیں اٹھو اور ممتاز قادری اور غازی علم الدین شہید رحمہ الله علیہ بننے کا یہ سنہری موقع جانے نہ دو، ساتھ میں تاکید بھی فرمائی کہ یہ کام شام سے پہلے پہلے ہو جانا چاہیے پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج اور حکومت پاکستان کی طرف کیا اور پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان کو بھی جی بھر کے گالیاں دیں، حضرت کا خطاب دلوں کو گرما گیا اور بھولے بھالے کارکن اور مرید لوگ تلوار، چھری،چاقو، لاٹھی، ڈنڈہ، جو ہاتھ میں آیا لے کر سڑکوں پر آ گئے اور اپنی قیادت کو یہ مشورہ بھی نہ دے سکے کہ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دیں اور دیگر قانونی راستے پر بھی توجہ فرمائیںرات کو ریاست کے وزیراعظم کا مختصر اور ٹو دی پوانٹ خطاب دھرنا مظاہرین کو مزید تڑپا گیا جس میں انہوں نے فوج کو گالیاں دینے والوں اور ججوں کو واجب القتل کہہ کر عوام الناس کو ان کے قتل کی ترغیب دینے والوں انتباہ کیا کہ ریاست سے مت ٹکرانا، اس خطاب کو جہاں دنیا بھر میں پزیرائی ملی وہیں اپوزیشن اور لبرلز کی طرف سے بھی بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور بلاول بھٹو تو اسمبلی میں نعرے لگانے لگے کہ ''قدم بڑھاو عمران خان'' اب وہ لوگ جو عمران خان کی طبیعت سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ عمران اپنی عوام پر کبھی ظلم نہیں کرئے گا اور عمران خان کے خطاب کو اس باپ کی ڈانٹ ڈپٹ قرار دے رہے تھے جو غصے میں اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ میں ''تیریاں ہڈیاں توڑداں'' اسی دوران دھرنا مظاہرین میں شامل شر پسندوں نے بھی انتہا کر دی اور توڑ پھوڑ، جلاو گھیراو جیسے درجنوں واقعات بھی منظر پر آنے لگے. بلآخر حکومت اور مظاہرین میں جب ایک معاہدہ طے پانے کے بعد دھرنا ختم ہوا تو کافی سارے لبرلز خون کی الٹیاں کرنے لگے کہ کہاں ہے وہ آہنی ہاتھ جس سے نپٹنے کا اعلان کیا گیا تھا. اس ضمن میں وزیر براۓ داخلہ امور شہریار خان آفریدی کا بیان اہم تھا کہ جب ان سے ایکشن لینے کا پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ریاست کی ذمہ داری پوری کر دی کہ میں اپنے ہی شہریوں پر فورس کیسے استعمال کروں؟یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں نے بذات خود اس مذہبی سیاسی جماعت کے جس کارکن یا قائد کو یہ مشورہ دیا کہ آپ قانونی چارہ جوئی کریں، سڑکوں پر اس طرح سرکاری و عوامی املاک کو نقصان دینا مناسب نہیں، اتنی بات سن کر وہ میرے ہی ایمان کو تولنے لگا، کفر اور مرتد ہونے کے طعنے دیے گئے جس طرح اس مذہبی سیاسی جماعت کے قائدین نے بغیر سوچے سمجھے ہر ایک پر کفر کے فتوے دیے ان کے کارکنان کے عتاب سے بھی کوئی خوش نصیب ہی بچ گیا ہو گا. نجانے کیوں یہاں ہر کوئی خود کو ہی عاشق رسول اور جو دھرنا قائدین کی بات سے اختلاف کرے وہ گستاخ رسول ہو جاتا ہے.عرض اتنی ہے کہ دوسروں کو کو بھی جینے کا حق دو ہو سکتا ہے کوئی ٹائر جلا کر، راستہ روک کر، گالیاں سے کر، سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان دے کر یا نقصان دینے والوں کی حمایت کر کے اپنے ایمان کا ثبوت نہ دے سکتا ہو، ہو سکتا ہے اس مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنان کے علاوہ کسی دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والا بھی راسخ العقیدہ مسلمان ہو 

محمّد فیصل


1 Comments

Post a Comment