میرے بیٹے ہیں کہاں، اردو زبان پوچھتی ہے

مجھے ہے حکم اذاں

میں نے کیا ہجر میں مرنا ہے یہ ماں پوچھتی ہے
میرے بیٹے ہیں کہاں اردو زبان پوچھتی ہے

ایک عظیم مُلک پاکستان کی صورت، نعمتِ خداوندی کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم نے یہاں اپنے مذہب و ثقافت کے ساتھ جو حال کیا اس سے کہیں برا حال اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ کیا۔ ہم نے ملک میں اردو کے بجائے انگریزی زبان نافذ کردی اور گزشتہ تہتر سال سے یہی زبان نافذ ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ دفاتر، تعلیمی ادارے اور عوامی مقامات انگریزی زبان سے ہی بھرپور ہیں۔ اردو زبان ہر بچہ معاشرے سے سیکھ لیتا ہے، اس کے بعد اسے انگریزی سیکھنے کےلیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اس کے سیکھنے میں کچھ کمی رہ جائے یا نہ سیکھ پائے تو اس کےلیے جینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ملک میں تو ہر جگہ انگریزی کا راج ہے اردو زبان کو پوچھتا ہی کون ہے؟ وہ جیسی کیسی بھی بول یا سمجھ لی تو کام چل جاتا ہے لیکن انگریزی میں کسی قسم کی کمی پائی گئی تو کتنا ہی محب وطن کیوں نہ ہو راندہ درگاہ ہوجاتا ہے۔ اس کی کہیں جگہ نہیں رہتی۔ دفاتر میں جائے تو وہاں انگریزی میں خطوط پکڑا دیے جاتے ہیں جنہیں پڑھنے اور سمجھانے کےلیے انگریزی دان کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عوامی مقامات پر انگریزی اشارات پر مشتمل بورڈ لگے ہوتے ہیں جنہیں ایک ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ شخص کےلیے پڑھنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
ایک اور چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے یہاں حاملینِ اسناد (ڈگری ہولڈرز) تو بہت ہیں مگر ماہرینِ فن نہیں ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان سہی مگر یہ نام نہاد اپر کلاس کی زبان ہرگز نہیں اور نا ہی یہ سرکاری و دفتری زبان ہے۔ اردو کا اثر ہمارے دل و دماغ پر کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو ہم ماڈرن بننے کے لیے اپنی گفتگو میں انگریزی کے الفاظ استعمال کر کے اپنی زبان کو زخمی کر لیتے ہیں تا کہ سننے والے کو پتہ چل جائےکہ میں بھی پڑھا لکھا ہوں۔ سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کی ایک مجبوری ہے کہ ہر کوئی اردو نہیں سمجھتا تو انہیں مقامی زبانوں میں بات کرنی پڑتی ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کی حالت بھی یہ ہے کہ ڈاکٹر سے کوئی بات بھی کہنی ہو، کوئی تکلیف بتانی ہو تو انگریزی کا سہارا لے کر بات کریں گے۔ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کے نزدیک اپنی زبان میں کہی گئی بات زیادہ سنگین ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ دوست انگریزی مغلظات کا بھی برا نہیں مانتے۔ ہو سکتا ہے کہ اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے کچھ دوست میری بات سے اختلاف کریں اور دیگر زبانوں کو ہی جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہوں۔ زمانہ ہی کچھ ایسا ہے کہ انگریزی بولنا ہی باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ دیگر پاکستانی آپ سے مرعوب ہو جائیں تو اس کا آسان نسخہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ منہ ٹیڑھا کر کے ایک خاص ادا سے انگریزی کے لفظ چبا چبا کر ادا کریں اور بالفرض آپ کی انگریزی کمزور ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ دوران گفتگو انگریزی کے بھی ہاتھ پاؤں توڑیں اور بار بار کہیں کہ ''سوری میری اردو ذرا کمزور ہے.'' ذرا اندازہ تو کیجیے کہ مصنوعی پن جتنا زیادہ ہو گا اتنی قدر ہو گی آپ کی لیکن اہل فکر و دانش کے نزدیک معیار کچھ اور ہیں۔
یاد رہے کہ ترقی کسی زبان کے سیکھنے سے نہیں ہوتی بلکہ ترقی کے لیے علوم و فنون میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ اگر صرف انگریزی ہی اعلیٰ تعلیم کا معیار ہوتی تو یورپ و امریکا میں ریڑھی بان بھی روانی کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں لیکن انہیں تو تعلیم یافتہ خیال نہیں کیا جاتا لیکن ہمارے معاشرے میں علم کا معیار ہی کچھ اور ہے۔ بحیثیتِ قوم ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم انگریزی بول سکیں یا نا بول سکیں ہمیں اپنی زبان میں گفتگو کا سلیقہ تو ہونا ہی چاہیے۔ میرے قارئین یہ نا سمجھ لیں کہ میرے نزدیک انگریزی یا دیگر زبانیں بولنا کوئی معیوب بات ہے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی زبان کو کمتر سمجھنا معیوب ہے۔ عرب ممالک، ایران، فرانس، ترکی، تھائی لینڈ، اٹلی، اور جرمنی وغیرہ دنیا میں کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں لوگ صرف اپنی زبان بولتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، اپنے معمولات میں اپنی زبان استعمال کرتے ہوئے کسی بیزاری کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ آپ کو چاہے پچاس زبانوں پر عبور ہو اپنی زبان کو کبھی نہ چھوڑیں کیوں کہ اس کی مہک میں اخلاق و محبت کا وہ رچاؤ ہے جو ہمیں کسی اور زبان میں نہیں ملتا۔ سب انسان مختلف رشتوں کی ڈور سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں مگر زبان کا رشتہ، سب سے اہم ہے اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب پردیسی کو دیار غیر میں کوئی اپنی زبان بولنے والا مل جائے۔ بحثیت قوم ہم نے اردو ہی نہیں اپنا ہر اثاثہ خود اپنے ہاتھوں تباہ کیا ہے جس میں مذہب، ثقافت، زبان و اخلاقیات و احساسات سب شامل ہیں. ہم پچھلے 73 سالوں سے ترجیحی بنیاد پر انگریزی سیکھ رہے تھے اور اب مزید یہ کہ ہم ہندی اور چینی بھی سیکھ رہے ہیں اور یہ سب کی سب نقل برائے نقل ہے۔ بس نہیں سیکھ رہے تو اردو کیونکہ اسے ہم گھر کی لونڈی کی طرح قدموں میں جگہ دیتے ہیں حالانکہ اس کی قدر تو ماں کی طرح کرنی چاہیے تھی لیکن ہم اپنے اس قیمتی اثاثے پر بس شرمندہ ہیں کیونکہ ہم شرمندہ قوم ہیں.
لائق تحسین ہیں وہ شعرا و ادباء حضرات جو اپنی فکر سے، اپنی ادبی تخلیقات سے اس قابل قدر زبان کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔


محمّد فیصل

Post a Comment