الفاظ کا تقدس

مجھے ہے حکم اذاں

الفاظ کا تقدس

الله غریق رحمت فرماۓ ہمارے استاد محترم سید منیر حسین ہاشمی صاحب فرماتے تھے
کہ "جگہ، یا املا کی تبدیلی سے الفاظ کے معانی و مطلب تبدیل ہو جاتے ہیں" جیسے لفظ گولی کا معنی اسلحہ کی دکان پہ مختلف اور میڈیکل سٹور پہ بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ یہی لفظ گولی سائیکل مرمت کی دکان پر بولا جائے تو یکسر مختلف معنی ادا کرے گا. کبھی کبھی وقت کا بدلاؤ بھی الفاظ کے معانی بدل ڈالتا ہے. لفظ موبائل، موبائل فون کی ایجاد سے پہلے صرف متحرک کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا آج کل اس کا معنی بالکل بدل چکا ہے. لفظ سکرین کبھی صرف پردے کے لیے استعمال ہوتا تھا اب دیگر معنی بھی رکھتا ہے. اسی طرح کچھ الفاظ اپنے متصل الفاظ یا انداز سے پہچانے جاتے ہیں جیسے ''ادا'' کہیں تو نجانے یہ ناز نخرے والی ادا ہے یا قرضہ ادا کرنے کی بات ہے؟ ''ملکہ'' کہیں تو شاید یہ بادشاہ کی مونث ہو یا کسی کام میں کمال حاصل کرنے کا نام ہو؟ ''ہار'' کا ایک معنی شکست اور دوسرا گلے میں پہنایا جانے والا ہار؟ ''سونا'' ایک قیمتی دھات یا پھر آرام کرنا؟ ''آرا'' کہیں تو لکڑی کاٹنے والا اوزار یا پھر راۓ کی جمع؟ ''سودا'' کا مطلب جنون یا گھر کی سبزی ترکاری وغیرہ؟ 
یعنی الفاظ اور ان کے مفاہیم کا اندازہ زمان و مکان، حالات و واقعات سے ہی کیا جا سکتا ہے. وہ معاشرہ جو معتبر الفاظ کے معنی نیچ قسم کے متعین کر دیتا ہے دراصل اخلاقی اور فکری اعتبار سے زوال پزیری کا شکار ہوتا ہے. اور یہ بہت بڑا لمحہء فکریہ ہے. لفظ استاد اپنے معنی اور مرتبے کے حساب سے کتنا معزز اور معتبر ہوا کرتا تھا. آج کے دور میں ہم لوگ استاد اس آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے اندر استرے جیسی صفات رکھتا ہو۔ یعنی جرم پیشہ یا مکار آدمی کے لیے ہم لفظ استاد استعمال کر کر کے اس کے معنی نیچ کر چکے ہیں. لفظ بچی کتنا معصوم اور پاکیزہ سا لفظ ہے جس کے معنی سوچ کر ہی دماغ میں ایک معصوم بیٹی کے تقدس کا احساس جاگتا ہے. لیکن ہمارے معاشرے میں آج جس لڑکی کو اوباشوں، لفنگوں نے تاڑنا ہو اسی غلیظ کام کے لیے یہ بچی کا لفظ استعمال ہوتا ہے. حالت یہاں تک پہنچ جائیں گے اور ہم بحیثیت معاشرہ اس لفظ کے معنی اتنے گرا دیں گے کہ بالآخر اپنی بہن بیٹیوں کے لیے یہ لفظ ہی ترک کرنا پڑے؟ کیا یہ ہماری اخلاقی پستی کی انتہا ہے یا مزید اس سے بھی کچھ آگے؟؟ اس کے علاوہ اب سوشل میڈیا پر لفظ باجی، ماں اور بہن کا تقدس ہم لوگ ختم کر رہے ہیں، بیٹی، ماں، بہن وغیرہ جیسے لفظ آخری حد ہوتے ہیں۔ جب ایسے الفاظ کا تقدس ہی برقرار نہ رہے تو رشتوں کا تقدس کہاں برقرار رہے گا؟ کیا کریں کہ آج ''اُلو دا پٹھا'' ''ماں دی سری''، ''پین دی سری'' ''پاگل دا پُتَر'' وغیرہ کو گالی نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ رہنماؤں نے یہ الفاظ بے دھڑک بولے اور ایسے رہنماؤں نے جو کچھ کہا ہم لوگ بے حس بن کر سینوں پر لیے پھرتے ہیں. خدارا رشتوں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں جسے بہن اور بیٹی کہیں اسے بہن اور بیٹی ہی سمجھیں۔ بہ صورتِ دیگر آنے والے کل میں لفظ بہن اور بیٹی کا بھی وہی حال ہو گا جو ہم استاد اور بچی جیسے عظیم الفاظ کا دیکھ رہے ہیں۔ لفظ باجی، ماں اور بہن حد سے زیادہ احترام کا متقاضی لفظ ہے۔ جسے حد سے زیادہ احترام دے سکتے ہیں اسی کو بہن کہیں اور کبھی بھی رشتوں کی تقدیس سے خیانت مت کریں آج ان الفاظ کی تقدیس پامال کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ ہمیں بھی اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ اسی معاشرے میں رہنا ہے. بہتر ہے کہ ایسی بیہودہ اور ننگ آدمیت سنگتوں، مجلسوں سے خود بھی بچیں، اپنی اولاد کو بھی بچائیں اور الفاظ کے مقدس پیالوں میں غلیظ جذبات کبھی نا انڈیلیں. بلآخر آپ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں

محمّد فیصل

Post a Comment