مٹی نہ پھرول فریدا
یار گواچے نئیں لبدے
آہ'' رمیض جاوید''
2 جولائی 2019 کو 29 برس کی عمر میں داغِ مفارقت دینے والے رمیض جاوید کو سپرد خاک کر دیا گیا لیکن ابھی بھی اُس کی موت کا یقین نہیں آتا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے پر مُسکراہٹ سجائے اور خوبصورت لباس میں ملبوس ابھی سامنے آنے والا ہے۔
رمیض صرف دوست ہی نہیں ایک وفا شعار اور عظیم ساتھی بھی تھا۔ جب اور جہاں ملتا اپنی مُحبتوں سے دل موہ لیتا۔ کبھی کبھی نمکین جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا تو اس میں بھی احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا چونکہ عمر میں سب قریبی دوست اس سے بڑے تھے اور ہم سب رمیض کو دوست کی بجائے چھوٹا، پیارا بھائی کہتے۔
رمیض ایک زندہ دل انسان تھا کبھی کسی غم اور تکلیف میں اسے مُرجھایا ہوا نہیں دیکھا۔ مسکراتا چہرہ، روشن آنکھیں، دل موہ لینے والی گفتگو، خوبصورت لب و لہجہ، پیار سے ملنے کا انداز، کبھی زیر لب مسکراہٹ اور کبھی بھر پور قہقہ لگاتا ہوا، دوستوں کا یہ گمان ہمیشہ میرے لیے قابل فخر رہا ہے کہ دوستوں میں وہ سب سے زیادہ میرے قریب تھا اور ایسا قریب کے سب اُسے میرے بیٹے مُحّمد علی کا لنگوٹیا دوست کہتے۔ مجھ سے جب بھی ملتا تو اور کسی کا ذکر کرتا یا نہ کرتا مگر اپنے چھوٹے مرحوم بھائی ایشان جاوید کی موت سے گھر خصوصاً والدین پر پڑنے والے اثر کا ذکر ضرور کیا کرتا۔ وہ اکثر اوقات قریبی دوستوں اور ساتھیوں کی تعریفیں ضرور کرتا۔ بشری تقاضا ہے کہ کوئی بھی انسان کامل نہیں مگر وہ ہمیشہ دوستوں کی خوبیاں دیکھتا اور خامیوں سے صرفِ نظر کرتا۔ دوستوں کو جوڑے رکھنے کا جو کمال رمیض میں تھا شاید وہ ہم میں سے کسی میں نہیں ناصر کاظمی نے شاید ایسے ہی دوست کے بارے کہا ہو گا کہ
"دوستوں کے درمیاں، وجہِ دوستی ہے تُو”
کبھی مبشر کا ذکر چھڑتا تو اس کی بہت تعریفیں کرتا اور اکثر کہتا تھا کہ ہمارے سب دوستوں میں موبی (مبشر خان) اللہ کا ولی ہے۔
رمیض دوستوں کا دوست تھا، اس کی رفاقت میں انسان کبھی بور نہیں ہوتا تھا۔ اس شخصیت کو اگر چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ ایک خوش مزاج، خوب صورت، خوش گفتار، خوش لباس اور مُجسمِ محبت اور عجر و انکسار کا پیکر تھا۔
ہائے رمیض یارا ابھی تو پیارا بیٹا راحم پنگوڑے میں ہے اور ابھی اسے حافظ قرآن بننے میں سالوں لگیں گے، اسے اعلی تعلیم دلوانا تھی تمہیں، ابھی تو اپنی پیاری بہن اور خاندان کی بیٹیوں کو اپنی دعاوں تلے رخصت کرنا تھا۔
رمیض خاندان میں کم عمر لیکن فہم فراست کے لحاظ سے بزرگ کا درجہ رکھتا تھا۔ رمیض میرے دوست تم جیسی صفات کسی میں نہیں۔ رمیض دوستوں مان تھا اس کے قریبی دوستوں میں مبشر خان، عامر روشن، شوکت، عمران، نوید، صداقت، ریاض انجم، حمزہ، حسام، اعظم اور جھوٹا سگا بھائی ایشان جسے وہ دوست سمجھتا تھا اور دیگر مجھ سمیت سب دوستوں پر جان نچھاور کرتا تھا۔ مشکل وقت پر دوستوں کے ساتھ رمیض ایک مثالی کردار ادا کرتا لیکن آج نوحہ پُرسہ کس کو دوں؟
اجڑتی جاتی ھے چوپال اور نہیں معلوم،
کہاں گئے جو یہاں داستاں سناتے تھے
رمیض اگر میں شاعر ہوتا تو تیری موت پر نوحے لکھتا۔ معروف شاعر ڈاکٹر بیدل حیدری کا نوحہ میرا ترجمان ہے
کس قدر سادہ و معصوم نظر آتا تھا
چاند لکھوں کہ تجھے چاند کا ٹکرا لکھوں
تیرے معصوم تبسم سے سحر ہوتی تھی
اپنے قصبے کا تجھے کیوں نہ اجالا لکھوں
تو کہ تھا پورے علاقے کا ابھرتا سورج
اب کوئی تجھ سا نظر آئے تو تجھ سا لکھوں
میں نے دیکھا ہے تجھے خون کے طوفانوں میں
یہ غلط ہے ،تجھے پیاسا، سر صحرا لکھوں
اے خدا ایسی اجل اب نہ کسی کو آئے
آج کے بعد کسی کا بھی نہ نوحہ لکھوں
مرنے والا میرا بیٹا تو نہیں تھا بیدل
دل یہ کہتا ہے مگر اپنا ہی بیٹا لکھوں۔
مُحّمد فیصل
Rola dia faisal baji apki iss threer ne. ALLAH RAMEEZ K DARJAAT BOLAND KARE OR OSS K WALDAYN KO SABAR DE. AMEEN.
ReplyDeleteآمین ثم آمین
DeleteMISS YOU YARA, TERE VOICE MSG ROLA RAHE HE.
ReplyDeleteہم سب کو
DeleteRameez insanyat dost shakhas Tha choti si age me hi kafi mature baten krta tha . Muje hmesha appi kehta Tha ab bhi uski awaz sunae deti h 😢
ReplyDeleteAllah Ta'alla usko janat alfirdos me all allaa muqam de ... Ameen
بہت ہی مودب اور اعلی اخلاق کا مالک تھا۔
Deleteاللہ کریم جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین
بہت مودب اور اعلی اخلاق تھا اس کا۔
Deleteاللہ کریم جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین
Post a Comment