کاش کوئی آگے بڑھے اور سوشل میڈیا پر چلتی پولیس تشدد میں جاں بحق سانحہ ساہیوال کے مقتولین یا پولیس تشدد سے مرنے والے صلاح الدین کی ویڈیو ڈیلیٹ کر دے۔ اگر نہیں تو کم از کم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان ہی اپنی ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیں، وہ بیانات وہ دبنگ اسٹائل اور غصیلہ لہجہ چند لمحوں کا تحفظ تو دے گیا مگر اس کے بعد مسلسل مایوسی دے رہا ہے۔ کبھی کبھی خالی الذہنی کے عالم میں، کبھی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کی سرچ میں یہ ویڈیو سامنے آتی ہے تو مایوسی ، خوف اور رنج سے دل رکنے لگتا ہے۔ کاش کوئی یہ ویڈیو ڈیلیٹ کردے۔ اک قلمکار ہی نہیں کون ایسا ہوگا جس نے انسانی روپ میں ان باوردی درندوں کے قہقہے ماڈل ٹاؤن، ساہیوال اور صلاح الدین کیس میں نہ سنے ہوں؟ جو وہ اپنے ایسے گوشت پوشت کے انسانوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہوے تفریح طبع کے لئے لگاتے تھے۔ لیکن نئے پاکستان میں کچھ ایسے بے حس لوگ بھی ہیں جو اشارہ ملنے پر ہر اس جرم کے دفاع کیلئے اتر آے ہیں جس کی کم از کم مذمت کرنا ہر ذی شعور پر لازم ہے۔ حاکم وقت کی خوشنودی کیلئے ہوتے ہیں کچھ ایسے لوگ بھی۔ حب جاہ، دولت دنیا، عہدہ منصب کا لالچ ایسے لوگوں کو لشکر یزید میں جا کھڑا کرتا ہے۔ سو اب ایسے رضاکار میدان میں اترے ہیں۔ وہ بھی سوشل میڈیا پر پولیس تشدد کا نشانہ بننے والوں کو کبھی دہشت گرد اور کبھی کسی ذہنی معذور شخص کو چور ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کوئی اس کو کسی بڑے گینگ کا کارندہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہا ہے۔ ایک وہ رحیم یار خان کا ڈاکٹر ہے۔ طبیب کیا بس پیسے کمانے کی مشین ہے۔ جس نے لکھ دیا کہ مقتول پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ پھر وہ پولیس کا اعلیٰ افسر ہے۔جو یقینی طور سول سروس کا اعلی ترین امتحان اچھی پوزیشن میں پاس کرکے پولیس فورس میں آیا ہوگا۔حیرانگی ہوئی اس کو ٹی وی چینل پر شستہ انگریزی میں اس جرم کا دفاع کرتے ہوئے۔ ایک ویڈیو میں صلاح الدین کے مردہ دریدہ بدن کی تصویریں چل رہی تھیں۔ اور دوسری جانب اس اعلیٰ تعلیم یافتہ پولیس افسر کا انکار کہ تشدد تو ہوا ہی نہیں۔ بے غیرتی اور پیشہ وارانہ بے حسی کا ایسا نمونہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ لیکن ایسے تنخواہ داروں میں بالکل نہیں ہوتی۔ بس اگلے عہدے پر ترقی کی خواہش ہوتی ہے۔ اور اپنے سے کمزوروں پر طاقت کے اظہار کی جبلت۔ درندوں کی مانند۔ انسانیت کی اس سے بڑی تذلیل اور کیا ہوگی کہ تشدد سے چور آخری سانسیں لیتا، پانی مانگتا ہے۔ اور آگے فرمائش آتی ہے کہ کتے کہ طرح بھونک کر دکھاؤ۔ ڈھٹائی ، بے خوفی ، بے شرمی کا یہ عالم کہ اس سارے غیر انسانی تشدد کی ویڈیو بھی بنتی ہے۔ کیونکہ یہ نیا پاکستان ہے۔ پرانے پاکستان سے بھی زیادہ زبوں حال۔ سسکتا روتا کرلاتا پاکستان۔ پولیس مقابلے ، پولیس حراست میں ہلاکتیں بھی ہوتی تھیں. عمران خان ایک نئی امید کی کرن بن کر نکلا اور انتخابی کمپین کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ بس اقتدار میں آتے ہی بیورو کرسی کو نکیل ڈال دی جائے گی۔ تھانہ اور پٹواری کلچر تبدیل ہوجائے گا۔ ہر خاص و عام کو انصاف ملے گا، پولیس تمھاری محافظ ہو گی، کرپشن و رشوت کا خاتمہ ہو گا، لیکن ڈیڑھ سال میں سب سے بڑے صوبے کی حالت یہ ہے کہ پولیس حراست میں ہلاکتوں کا سکور درجنوں تک پہنچ چکا۔ نہ جانے خفیہ نجی عقوبت خانوں میں کتنے بے جان لاشے منتظر ہیں کہ کوئی خفیہ ویڈیو منظر عام پر آئے اور ان کے لواحقین کو خبر ہوجائے۔ نئے پاکستان میں تو ہر شہری کو اپنے پاس ، ارد گرد کسی ویڈیو کیمرہ کا بندوبست رکھنا ہوگا۔ تاکہ جرم کا ، ظلم کا کوئی ثبوت تو ہو۔ ورنہ تو تاریک راہوں میں موت کی گھاٹ اتر جائیں گے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ صلاح الدین کے دانستہ متشدد قتل کا سراغ بھی کبھی نہ ملتا۔ سوشل میڈیا پر شور مچا تو پنجاب کے وسیم اکرم پلس کا نظام انصاف حرکت میں آیا۔ کمیٹیاں بن رہی ہیں۔ کمشن قائم ہورہے ہیں۔ بیانات داغے جارہے ہیں۔ نیا پاکستان کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ اب حاکم وقت مظلوم کے آنسو پونچھنے کیلئے ، داد رسی ، پرسے دلا سے کیلئے اس کو اپنے گھر بلاتا ہے۔ کمال ہے۔ ہے ناں نیا پاکستان۔ سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کو بھی ایک روز گورنر ہاؤس بلایا گیا۔ جہاں بنی گالا سے آئے حاکم وقت نے ان بچوں کے ساتھ فوٹو سیشن کیا۔ ان بچوں کے ساتھ جن سے اس نے ماہ جنوری میں بذریعہ ٹویٹ وعدہ کیا تھا۔ ان کو ہی نہیں پوری قوم سے کہا تھا۔ قطر سے واپسی پر ظالموں کو عبرت کی مثال بنا دوں گا۔ کوئی اچھا فوٹو گرافر جائے اور تصویر بنائے۔ عبرت کی تصویر وہ معصوم بچ گئے ہیں یا ان کے قاتل؟ جن میں سے کچھ عہدوں پر بحال بھی ہونے کی اطلاع ہے۔ پنجاب میں کئی آئی جی تبدیل ہوگئے۔ اصلاحاتی کمیٹی کا سربراہ مستعفی ہوچکا۔ ہر روز تبادلوں کے جھکڑ چلتے ہیں۔ حکومت یا وزیروں سے نسبت رکھنے والے کسی فرد کی پیشانی پر بل آجائے تو پولیس افسر بیک جنبش قلم تبدیل ہوجاتا ہے۔ کچھ دن میڈیا پر وا ویلا مچتا ہے۔ اور پھر سارا معاشرہ چپ کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اگلے سانحہ کے انتظار میں۔ کسی نئی تحقیقاتی کمیٹی کے انتظار میں۔ کسی نئے کمیشن کی خبر سننے تک۔ حاکم وقت کی انصاف پسندی کیلئے پروگرام کرنے کی غرض سے۔ ساہیوال میں پولیس قتل عام کرتی ہے، صلاح الدین پر تشدد پولیس کرتی ہے. اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا کہ سیالکوٹ میں دو بھائی سرعام تشدد کر کے ہلاک کر دیئے گئے۔ ماڈل ٹاون کے نام پر شیخ شعبدہ نے خوب سیاست کی۔ انجام کار کچھ بھی نہ ہوا۔ آج تک کسی پولیس حراست قتل ، کسی جعلی پولیس مقابلے کے مرتکب افسر کو سزا نہیں ملی۔ آئندہ بھی نہیں ملے گی۔ جب تک پولیس اصلاحات نہیں کی جاتیں۔ جب تک منہ زور پولیس اہلکاروں کو حاصل اندھے اختیارات کو قانون کی لگام نہیں ڈالی جاتی۔ جب تک پولیس اہلکاروں کو انسانی جان کی حرمت کا سبق نہیں پڑھایا جاتا۔ جب تک تفتیش اور سراغ رسانی کیلئے ٹیکنالوجی کی مدد نہیں لی جاتی۔ یہ سب کچھ ہوگا معلوم نہیں۔ کون کرے گا۔ معلوم نہیں۔
محمّد فیصل
Post a Comment