اب کس سے شکوہ کریں
از قلم۔ محمد فیصل
https://www.facebook.com/onthisday/?source=promotion_feed_story&campaign_id=1576973392363884
کوئٹہ ہو کہ پشاور۔۔۔۔ کراچی ہو یا بہاولپور۔۔۔ گلگت بلتستان ہو کہ کشمیر۔۔۔۔ شام، عراق، افغانستان ہو کہ برما۔۔۔۔ انسانوں کا قصور کیا ہے، کچھ طاقتور اپنی طاقت کے بل پر دوسروں کو غلام بنانے کے خواہشمند کیوں ہیں۔۔۔؟ اپنی مرضی اور نظریے کے مخالف شخص کی جان لینا کتنا آسان ہو گیا ہے۔۔۔۔ ایک لمحے کو کوئی نہیں سوچتا کہ اس انسان پر کسی کی کتنی محنت صرف ہوئی ہے، کسی کی کتنی عبادت، ریاضت، اور مشقت کے بعد ایک نومولود اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے، پڑھتا ہے، ایک ایک لفظ کو یاد کرنے کی مشقت اٹھاتا ہے، ایک ایک ادب آداب کا ہاتھ تھامتا ہے، کیسے زینہ زینہ آگے بڑھنے کا جتن کرتا ہے اور بیس بائیس برس کے بعد کسی ظالم، کسی سنگ دل کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔۔۔۔۔ ایک گولی یا بم دھماکہ اور ایسے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں جو اپنے خاندانوں کے لیے گوہر نایاب اور اخبار یا نیوز چینل کے لیے فقط عدد اور ایک دن کی شہ سرخی ہی ہوتے ہیں
میرے پاس کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جو ان ظالموں کے پاوں میں دھاگے جیسا بھی بند باندھ سکیں۔۔۔۔ نوحہ کسی بشیر، منیر، سلیم، ساجد یا ندیم کا نہیں، نہ ہی اس شاہزیب کا جو کراچی میں طاقتور کے غرور کا نشانہ بنا، نہ ہی ان ملزم چوروں کا جنہیں گاؤں کے منصف لوگوں نے ڈنڈے مار مار کر مار دیا۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی اندھی گولی کا نشانہ بن جانے والے راہگیر کا۔۔۔۔۔ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ انسان مر گیا ہے۔۔۔۔ ایک انسان جو بالکل ہمارے جیسا تھا۔۔۔۔ بے شمار خواہشوں سے جڑا ہوا۔۔۔۔۔ جذبوں سے سینچا ہوا۔۔۔۔۔ خوشبووں میں بسا ہوا۔۔۔۔۔۔ ایک انسان۔۔۔۔ جو خوابوں کی ٹوکریاں اٹھائے اپنے مسکن سے نکلتا ہے اور پھر کسی دوسرے انسان کی نخوت اور نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اس کا قصور اتنا ہے کہ اس کم عقل کا نظریہ وہ نہیں جو قاتل کا ہے، اس کی سوچ ظالم کی سوچ سے مماثلت نہیں رکھتی۔۔۔۔ اس کی دلیل سے کوئی قائل نہیں ہو سکا تو اب جینا اس کا حق کیونکر ہے۔۔۔۔
یہ انسان انسانوں کو مارنا کب بند کریں گے۔۔۔۔؟ ان وحشیوں کے اندھے عقیدے ان کو انسانیت بھی نہیں بخشتے۔۔۔۔؟ اور ان کا مطمع نظر کیا ہے۔۔۔؟ اس طاقت کے استعمال کا نقطہ عروج کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
انسانوں کی اس بستی میں کوئی انسان بھی ہے کہ نہیں۔۔۔۔؟ کوئی ہے جو اس کھیل کو روک سکے۔۔۔۔؟ اور جو روکنے کا دعوی کرنے والے ہیں وہ روکنے کے نام پر اس سے زیادہ مار رہے ہیں۔۔۔۔۔کہاں رکے گا لہو کا یہ بے ایماں سیلاب۔۔۔۔؟
کچھ ایسے الفاظ نہیں جو کسی انسان کو قائل کر سکیں کہ اختلاف کی حد کنارہ کشی تک بھی رکھی جاسکتی ہے، طاقت کا مظاہرہ مخالف کو زندہ رکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔
ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔۔۔اور انسان میں اگر انسانیت ہو تو وہ چاہے جو کچھ بھی ہو انسان تو ہے۔۔۔۔ اس کا رنگ، فرقہ، زبان، نظریات مختلف ہوں تو ہوں لیکن اس کی انسانیت کی تقدیس کا سبق کون انسان یاد رکھے گا۔۔۔۔۔؟ نجانے انسان کب سمجھے گا۔۔۔۔۔؟
محمّد فیصل

Post a Comment