جب ظلم حد سے بڑھ جاۓ،

جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانوں

جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو ریاست بھی کچھ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ جب پولیس رشوت لینے کو حق سمجھتی ہو کھانے پینے کی چیزیں عوام سے چھینی جاتی ہوں، گھنٹوں سڑکیں پروٹوکول کی وجہ سے بند رہتی ہوں، ہر آدمی روڈ پہ کام کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہو، بجلی چوری کی جلائی جاتی ہو، چور سینہ تان کے چلتے ہوں، اسمبلیاں اور اس کے ممبران اپنے کاروبار کی باتیں کرتے ہوں، آئے روز ماتم ہوتے ہوں، غربا پر ظلم ہوتے ہوں، تجاوزات کو قانونی شکل دی جاتی ہو، سرکاری خزانوں کو نقصان پہنچائے جاتے ہوں، تعلیم تجارت بن جائے اور تجارت تباہ و برباد ہو جائے، گھر کو گھر کے چراغ سے آگ  لگ جائے، جب دکانوں کو آگ لگے اور لوگ چوری کی نیت سے وہاں کھڑے ہوں، ہر فرد اپنے آگے والے کی موت کو اپنی ترقی کا زینہ سمجھتا ہو دوست، دوست سے خوف زدہ ہوں، بازار میں ہر چیز دو نمبر کی بکتی ہو رشتے بیگانگی کی راہ پہ چلتے ہوں، جب مٹی سے پاوُں اُکھڑ جائیں اور زندگی سے مقصد مفقود ہو جائیں، بچے والدین سے بڑے ہوجائیں جوتے بڑے بڑے شو کیسوں میں سجائے جاتے ہوں اور کتابیں فٹ پاتھوں میں رکھی جاتی ہوں، اسکولوں میں گائے بکریاں باندھی جاتی ہوں اور مردہ کتے اور گدھے کا گوشت عوام کو کھلایا جاتا ہو، جن اداروں کا کام ہر قسم کی برائی کو روکنا ہے وہی برائی کی جڑ بن جائیں تو خلق خدا کے دکھوں کا مداوا کون کرئے گا۔۔۔ وہاں پھر جس کے پاس پیسہ اور طاقت ہو گی وہ جنگل کا قانون بنا کر جیئے گا اور دوسروں کا جینا اجیرن کرئے گا۔ ایسا ہی ایک اور دلسوز واقعہ گاؤں جیٹھ پور تھانہ حجرہ شاہ مقیم کے قریب پیش آیا جہاں ایک بار پھر ظلم کی انتہا کر دی گئی، غریب مزدور کے بیٹوں کو اسکے گھر سے اسلحہ اور غنڈہ گردی کے زور پر مقامی چودھری اسلم ارائیں بمہ 9 بدمعاشوں کے ان مزدور کے گلے میں کپڑا ڈال کے گھسیٹتے ہوئے اپنے ڈیرے پر لے گیا جہاں اس مزدور کو صرف اس وجہ سے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ مزدور نے چوہدری کی زمینوں پر کام کرنے سے انکار کیا۔ اس کے جسم پر برف توڑنے والے سوئے مارے گئے۔ کہاں ہیں ارباب اختیار جنہیں خلق خدا پر ہوتا ظلم نظر نہیں آتا۔۔؟ محکوموں کے لیے یہی بڑی خبر ہوتی ہے کہ وزیراعلی، وزیراعظم یا چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا۔۔؟ ادارے کہاں ہیں جنہیں امن و امان قائم کرنے اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے اسی عوام کے ٹیکس سے تنخواہوں دی جاتیں ہیں۔۔؟
 کاش میرے پاس اختیار ہوتا تو صرف قلم نہ اُٹھاتا بلکہ اس معاشرے کے در و دیوار ہلا ڈالتا، میرے پاس تلوار ہوتی تو سیاسی کھوپڑیوں کی بلند فصل کاٹتا جو ہر مجرم کی پشت پناہی کے منصوبے بناتیں ہیں اور انہی سیاسی کھوپڑیوں اور ان میں موجود غلیظ سوچوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے۔
کاش مجھے اختیار ہوتا کہ میں بڑے بڑے عماموں کے پیچ کھولتا، ان کی دستار فضیلت کے پھریرے بنا کر بالا خانوں پر لہراتا اور ایوان اقتدار کے دروازے پر کھڑے ہو کر فقیہ شہر کو للکارتا اور اس کی دراز قبا پھاڑ کر اس کے ٹکڑے دریدہ عفتوں کے حوالے کرتا تا کہ وہ اپنی برہنگی ڈھانپ سکیں۔ 
اگر ان الفاظ سے کسی کی آنکھیں کھل جائیں تو میں سمجھوں گا کہ میرے الفاظ اور احساسات کام آ گئے اور اس کے نفس کی نیکی جاگ گئی۔ مجھے داد و تحسین کی ضرورت ہے نہ فقیہوں کی ملامت، معلموں کے قہر اور نہ سیاسی راہنماؤں کی خشونت سے ڈرتا ہوں کہ اس کرہ ارض پر اس سے زیادہ بے مایہ چیز اور کوئی ہے ہی نہیں۔

محمد فیصل




3 Comments

  1. ایک بار سننے کا اتفاق ہوا تھا، بہت اچھا لکھتے ہیں آپ محمد فیصل صاحب، آج پڑھا تو یقین ہو گیا کہ یہ خدا کی خاص عطا ہے آپکو جو الفاظ کو موتیوں کی طرح پرو لیتے ہیں۔ بہت دعائیں آپ کے لیے، خوش رہیے ہمیشہ۔ آمین

    ReplyDelete



  2. اللہ تعالی ہم پر رحم کرے تو کرے آپنے اداروں پر دن بدن یقین کم ہوتا جا رہا ھے

    ReplyDelete

Post a Comment