کیا ہم بھی کوفی ہیں..؟

کوفہ کسی ایک جگہ یا شہر کا نام نہیں بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس ظلم پر خاموش رہنے والے ہیں وہ کوفہ ہی ہے ، کوفہ   ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں‌ ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم  فرد یا  گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں‌ دبکے رہتے ہیں.
ہمیں اپنے آپ کا محاسبہ کرنا ہے کہ کیا ہم  بھی کوفہ مزاج قوم ہیں ان کی طرح دھوکہ باز، منافق، ابن الوقت، جزباتی اور طاقتور کے آگے جھکنے والے۔ کوفہ اس شہر کا نام ھے کہ جہاں بنت حوا کو سر برہنہ کر کے پھیرایا جاتا رھا لیکن یہ  قوم خاموش رہی کہ یہ میری کونسی بہن بیٹی لگتی ھے۔ گھروں میں کام کرتے بچوں پر ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے کہ بتاتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ہم خاموش رہے۔ کوفی قصورکے وہ لوگ ہیں جو 300 بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز پہ بھی خاموش رہے کہ سامنے والے طاقتور ہیں۔ کوفہ اس بستی کا نام ھے کہ جس کو مذ ہب کے نام پہ جلا ڈالا گیا لیکن ہم خاموش رہے کہ وہ کون سے مسلمان ہیں۔
کوفہ مزاج وہ قوم ھے کہ جو ہزارہ برادری کی لاشوں کو سڑکوں پہ دیکھ کے بھی بےحس رہی کہ یہ دوسرے مسلک کے لوگ ہیں۔کوفہ ایک ایسے معاشرے کا نام ہے جہاں درجنوں مسافروں کو بسوں سے اتار کر، فرقے کی شناخت کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن زبانوں سے اف تک نہیں کی جاتی کہ قتل ہونے والوں کا تعلق اپنے مسلک سے نہیں۔ کوفی اس شہر کے باسی ہیں کہ جہاں دو بھائیوں کو تشدد کر کے مارا گیا لیکن قوم خاموش رہی کہ یہ کون سے ہمارے بھائی، بیٹے تھے۔   کوفہ مزاج کی حامل وہ قوم ہے  جہاں کئی زینب جیسی معصوم کلیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا لیکن ہم خاموش رہے کہ ہمارے بچے تو محفوظ ہیں۔کوفہ مزاج ہے  وہ قوم جو اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو سہتی تو ہے  لیکن آواز بلند نہیں کرتی۔  وہ ظلم معاشی ہو یا جانی۔۔۔ ہم نے خود پہ خاموشی واجب کر لی۔ یہاں جو بھی آیا لوٹ کے چلا گیا لیکن ہم لوٹنے والے کے حق میں ہی نعرے لگاتے رھے۔

نظریات اور انقلاب کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن جب بھی کوئی طاقتور آیا ہمارے نظریات اور انقلابی سوچ کو اپنے قدموں میں روندتا چلا گیا۔سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی عافیت کے کوفوں میں آباد ہیں، خاموش تماشائوں کی طرح۔ ہماری باتیں، ہماری عبادتیں، ہماری ریاکار پارسائی کوفہ کے ان باسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو اپنی اپنی پناہ گاہوں میں‌ چھپے خدا سے اپنی مرضی کے ان گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے جن کی شاید خدا کو پروا بھی نہیں تھی۔
لیکن اس دوران ظلم دیکھ کر خاموش رہ کر اتنا بڑا گناہ کر گئے جس سے رہتی دنیا تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں۔ ہم سب کوفہ کے رہنے والوں کا عمل دہراتے ہیں۔ ہمارا کمال صرف یہ ہے کہ ہم ہر عہد کے یزید کے دربار میں بیٹھ کر گزرے یزید کو گالیاں دیتے ہیں۔ اگر ہر دور کے کوفی خاموش رہنے کے بجائے اپنا اپنا فرض ادا کر تو شاید 61 ہجری کے بعد سے اب تک ہونے والی کئی کربلائیں وقوع پذیر نہ ہوئی ہوتیں

محمّد فیصل
Image result for ‫کوفہ مزاج لوگ‬‎

Post a Comment