زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

مجھے ہے حکم اذاں

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
حقائق تصوف کے بارے کچھ جاننے، سیکھنے سمجھنے کی کوشش میں تھا، ایک محب صادق و عزیز دوست نے علمی مواد کتابی شکل میں فراہم کیا۔ چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر مرحوم کا ایک جملہ نظر سے گزرا کہ 
"ہر پیر کا بیٹا پیر نہیں ہوتا اور ہر نبی کا ہر بیٹا نبی نہیں ہوتا۔"
یہ جملہ پڑھ کر اپنے معاشرے کی یہ "روحانی شکل" سامنے آ گئی کہ یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ یہاں تو گدیاں وراثت کی صورت اگلی نسلوں کو ملتیں ہیں، گدیوں کے لیے خون سفید ہو جاتے ہیں، لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب مدرسہ تعلیم کے لیے تھا، خانقاہ تزکیۂ نفس کے لیے، جبکہ آج یہ دونوں کاروبار اور متاع دنیا کے حصول کا ذریعہ بن گئے تو پھر تعلیم باقی رہی نہ تزکیہ۔ اب جو باقی ہے اس کے مظاہر ہمارے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ایک آدھ مدرسے یا ایک آدھ خانقاہ کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک وبا ہے جو پھیل چکی ہے۔بلاشبہ آج یہ اربوں روپے کی معیشت ہے۔اس پر عالمی و علاقائی سیاست کے اثرات بھی ہیں۔ ایک حلقہ انتخاب میں ہر امیدوار ووٹوں کے لیے پیروں کو خوش کرتا ہے۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ریاست اس مدرسہ و خانقاہ کو کسی نظام کے تابع کرے ۔ مدرسہ کو کسی نظم کا پابند کرنا آسان ہے۔ اس کاایک نصاب ہے، ایک نظام ہے۔ لیکن خانقاہ کا معاملہ البتہ پیچیدہ ہے۔” روحانیت‘‘ کا کوئی پیمانہ نہیں، جس سے اسے ماپ لیا جائے۔ 
مگر اب یہاں بھی مدرسے کی طرح باپ کے بعد بیٹا گدی پر بیٹھتا ہے۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ پرانے دور میں اولیائے کرام اپنے کسی لائق مرید کو اپنا خلیفہ مجاز مقرر کیا کرتے تھے۔ ایک روایت میں رہنے والا ہی پیر بنتا تھا۔ آج اگر اسی روایت کو ہی بحال کر دیا جائے تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اہل اللہ ان خانقاہوں کے معاملات ایمانداری اور دیانتداری سے نبھائیں اور وہی سجادہ نشین ہو جو شریعت مطاہرہ کا پابند ہو۔ اس سے خانقاہ کی روایت سے وابستہ سب قباحتیں تو ختم نہیں ہوں گی لیکن امید ہے کہ بہت حد تک کم ضرور ہو جائیں گی۔ پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی نکمی کیوں نہ ہو۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا۔ علامہ اقبال علیہ رحمہ نے اس بات کی یوں منظر کشی فرمائی کہ،

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

روحانیت کو کاروبار کا درجہ دینے دوسرا اہم سبب وہ جاہل مرید ہیں جو پیر صاحب کے ہر عمل پر ایمان اور ہر حرکت کو ولی اللہ کی ادا سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات تصور کر لی گئی ہے کہ جس طرح کارخانے دار کا بیٹا اس کے کارخانے کا، اور جاگیر دار کا بیٹا اس کی جاگیر کا وارث ہے بالکل اسی طرح پیر صاحب کا بیٹا پیر ہی ہو گا۔ اندھی عقیدت و تقلید کا جذبہ انہیں پالنے میں پلنے والے شیر خوار بچوں کے نام کے ساتھ صاحبزادہ، پیرزادہ، اعلی حضرت جناب، عالی مقام جیسے القابات کے گاڑھے شیرے میں ڈبو کر رکھتے ہیں اسی لیے جب یہ بچے پالنے سے نکلتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ یہی القاب تکبر و رعونت سے لگاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تمام ویب سائٹس آپ کو پیران عظام کے بچوں کے ناموں سے بھری ملیں گی۔
میں نے ایک پیر صاحب سے پوچھا سرکار آپ کا بزنس کیا ہے؟ تو چونک کر میری جانب حیرت سے دیکھنے لگے، میں نے صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کیا جناب یہ نئی گاڑی، گاڑی کا خرچہ، ڈرائیور، گن مین یہ قیمتی زرق برق لباس۔۔۔ خرچے کیسے پورے ہوتے ہیں؟ کہنے لگے "بس جی اللہ کا کرم ہے۔" میں نے پوچھ لیا کہ اللہ کا ایسا کرم کسی اور پر کیوں نہیں؟ پیر صاحب تو نہیں بولے مگر پاس بیٹھے ان کے مرید مجھے پھاڑ کھانے والی نظروں سے تکنے لگے۔ میرا خیال ہے کہ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں جس سے وقتاً فوقتاً کچھ مفادات حاصل کئے جا سکیں اور پیر صاحب کی نگاہ لطف بھی صاحب ثروت مریدوں پر عام مریدوں سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔
بہرحال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اقبال علیہ رحمہ نے کہا تھا کہ،

نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا

یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا منافع بخش کاروبار یقینا بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد ہی چلتا ہو گا، نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اور کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑتی ہوگی۔ حالانکہ پیر بننا پاکستان میں آسان ترین کام ہے۔ اگر آپ کسی پیر خاندان یا سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر تو آپ بنے بنائے سکہ بند پیر ہیں۔ پیری مریدی آپ کا خاندانی اور موروثی حق ہے، جسے کوئی مائی کا لعل بھی آپ سے چھین نہیں سکتا، ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
پیر بن جانے کے بعد زندگی کے وارے نیارے تو پکے ہیں، مرنے کے بعد بھی قل خوانی، چہلم، عرس، مزار، خانقاہ اور اولاد کی سرپرستی وغیرہ کے متعلق فکر مند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، سب کچھ خود بخود (Automatically) ہوتا چلا جائے گا۔ 

نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

2 Comments

Post a Comment