ماہِ صیام اور چِڑی روزہ
![]() |
مجھے ہے حکم اذاں ۔ محمد فیصل |
"روزے دارو!
اللہ تے نبی دے پیارو!
سحری دا وقت ختم ہون چہ ایک گھنٹہ رہ گیا جے،
جلدی جلدی اٹھ کے روزہ رکھ لو۔"
مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے وقفے وقفے سے ان اعلانات کی گونج کے پس منظر میں سے امی جان کی واضح آواز سنائی دیتی، "اٹھ میرا پتر تے دہی لے آ"، امی جان جلدی جلدی پراٹھے پکاتیں جاتیں اور ہم سب کو آوازیں لگاتی جاتیں، ایسے میں ماں جی کی آواز پر سب سے پہلے بڑے بھائی ان کی مدد کو جاگتے اور ہم ادھ کھلی آنکھوں سے آخری پراٹھا پکنے کا انتظار کرتے۔ جب سب چیزیں دستر خوان پر آ موجود ہوتیں تو بڑے بھائی کی گونجدار آواز سنائی دیتی "ہن اٹھ وی جا"، بس پھر نیند فورا ہی کہیں بھاگ جاتی اور ہم یوں اچانک بستر سے نکل کر منہ ہاتھ دھونے نکل کھڑے ہوتے جیسے ہم جیسا مستعد اور فرماں بردار کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ سب کے لئے پراٹھے اور کوئی سا بھی سالن، دہی لسی اور آخر میں امی جان کے ہاتھ کی چائے جسے پیالوں میں انڈیلنا بڑے بھائی (جو چاۓ کے سب سے زیادہ رسیا ہیں) کی ڈیوٹی ہوتی تھی، چائے دیتے ہوئے کہتے، "لو جی گلے دی ٹکور کر لو"، افطاریوں کی سب باتیں بھول سکتیں ہیں مگر جامع مسجد کے موذن کی آواز کہ "روزے دارو، الله تے نبی دے پیارو، روزہ کھول لو" اور وہ شربتِ روح افزا کا بڑا کمنڈل جس میں برف تیر رہی ہوتی تھی اب تک نہیں بھولتا۔ پاکستان کی گرمیوں کے روزے اور ٹھنڈا ٹھار لال رنگ کا شربت جو ٹھنڈ کلیجے میں ڈالتا تھا اس کیفیت کے بھی کیا کہنے۔
وہ ابتدائی روزے جب پورا روزہ رکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی امی جی کہتی تھیں "چڑی روزہ رکھ لو"، سحری کے ثواب کے اتنے فضائل بیان ہوتے تھے کہ بنا روزہ رکھے بھی ثواب کے لئے اٹھنا ہی پڑتا تھا۔ مجھے بہت زیادہ چڑی روزے بھی یاد نہیں کیونکہ بہت شروع سے ہی میں نے روزے رکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ تب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہمارے گھر میں اس شد و مد سے روزے رکھنے کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے۔ وہ بچپن کے دن بھی کیا خوب دن تھے جب کوئی فکر نہ تھی ایسے میں ہمیں جو ایک اور سہولت میسر تھی وہ تھی روزے میں رعایت، جس کو ہم چڑی روزہ کہتے تھے۔ ایک سمبولک روزہ اور ہم خود کو روزہ دار سمجھتے تھے۔ آج میرا بیٹا سحری و افطاری کا انتظار کرتا ہے اور جس طرح ہمیں بچپن میں رعایت میسر تھی میں بھی اسی انداز میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ یہ چڑی روزہ آج کی روایت تو نہیں۔ یہ تو تربیت کا ایک انداز تھا ہم جب چاہتے کھا پی لیتے تھے صرف عیش ہی عیش تھی لیکن اگر کوئی پوچھتا تو کہہ دیتے جی ہاں میں روزے سے ہوں، اس چڑی روزے کی سمجھ آج اتنے سالوں کے بعد آئی کہ گرمیوں کے سخت روزے بھی چھوڑنے کا خیال نہیں آتا یہ اسی چڑی روزے کی پریکٹس کا نتیجہ ہے۔ لیکن آج کل اس چڑی روزے کا تقریباً رواج ختم ہو گیا ہے، اور حالت یہ ہے کہ اب روزے میں لوگ سرِعام کھانے پینے کو عاربھی نہیں سمجھتے کیونکہ شاید آج بہت سے بچے چڑی روزے کے نام سے بھی شائد واقفیت نہ رکھتے ہوں۔ اگر بچوں کو روزے کی عادت ڈالنی ہے تو چڑی روزے کی پریکٹس شروع کرانی ہو گی۔ اگر میں چڑی روزے کو تربیت کا نام دوں تو مناسب ہو گا، والدین کے لیے یہ ایک توجہ دلاؤ تحریر کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ جو بچے بچپن میں چڑی روزہ نہیں رکھتے اور والدین انھیں ماہ صیام کی اہمیت و برکت نہیں بتاتے، وہ بچے بڑے ہو کر چڑی روزہ رکھنا شروع کر دیتے ہیں اور فرض روزے کو بھی چڑی روزہ سمجھ کر جب جہاں جی چاہا کھا پی لیا مطلب روزہ نہیں رکھتے۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ بھی کیا دن تھے جب بھوک لگتی تو ماں کہتی بیٹا روزہ منہ سے نکال کر کان میں رکھ لو اور کھا پی کر دوبارہ منہ میں رکھ لینا، لیکن آج ننھے دماغوں کو آنے والے وقت کیلئے تیار ہی نہیں کیا جاتا۔ آج کی ماؤں کو چڑی روزے کی اصطلاح میں تربیت کا یہ پہلو یاد ہی نہیں کہ اس میں بچے کو کھانے پینے کی چھوٹ بھی ہوتی ہے اور ذہنی طور پر وہ روزہ دار بھی ہوتا ہے اور روزہ دار ہونے کے ناتے وہ ماں باپ کی حوصلہ افزائی کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ یقین کریں اس تربیت کا فائدہ بڑے ہو کر ہوتا ہے اور روزہ تو جسم کے ساتھ ساتھ ایمان کو بھی فائدہ دیتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے چھوٹے بچوں کو چڑی روزے کی عادت ڈالنا ہو گی، اس تربیت کا اثر ضرور ہو گا۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نے کبھی روزہ چھوڑا ہو۔ ایک مقابلہ سا ہوا کرتا تھا۔ بڑے بھائی جان زیادہ روزے رکھنے والوں کی عیدی میں بھی اضافہ کیا کرتے تھے۔ عیدی سے مجھے یاد آیا کہ ہمیں عیدی بھی کچھ قابل ذکر نہ ملا کرتی تھی۔ رشتہ دار امی جان کو اکھٹی عید دے جایا کرتے تھے اور امی جان اس عیدی کو دیگر ضروریات کے کھاتے میں ڈال کر برابر کر دیا کرتی تھیں۔ ہم امی جان اور بڑے بھائی سے ضد کر کے کچھ عیدی بٹورا کرتے تھے۔ کوشش کر کے مرحوم ثاقب بھائی کی جیب سے بھی پانچ دس روپے نکلوا لیا کرتے تھے لیکن پھر بھی کچھ خاطر خواہ اکٹھا نہ ہوتا تھا قریبی رشتہ داروں ماموں، چچاوں نے کبھی اتنا قربت کا موقع ہی نہیں دیا کہ ضد کر کے کچھ روپے اُن سے بھی نکلوا لیتے۔
ہمارے دور میں روزہ کشائی وغیرہ کا بھی رواج نہیں ہوتا تھا۔ میں نے یہ لفظ سنا ہی چند برس پہلے ہے وہ بھی شاید میڈیا کے توسط سے۔ اس لئے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پہلا روزہ کب رکھا تھا۔ لیکن یہ پکی بات ہے رمضان کا ہی مہینہ تھا۔
محمّد فیصل

بہت عمدہ تحریر
ReplyDeleteوالدین ضرور اس پر عمل کریں
بہت شکریہ
DeletePost a Comment