مولانا نرغےمیں
عہدِ حاظر میں چند غیر متنازعہ علماۓ دین میں سے ایک مولانا طارق جمیل بھی ہیں اور مخلوق خدا سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ تقریباً ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کے موبائل فون میں مولانا طارق جمیل صاحب کا کوئی نہ کوآڈیو یا ویڈیو کلپ ضرور ہو گا۔ گزشتہ تین دن سے لائیو ٹیلی تھون نشریات میں مانگے جانے والی دعا کے اثرات بریکنگ نیوز کی شکل اختیار کر چکے ہیں، ٹالک شو ہوئے، تجزیے، تبصرے، گرما گرم بحث و مباحثے ہوئے، میڈیا کی پاکدامنی کو ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے اور حد تو یہ ہے کہ طاہر اشرفی جیسی شرابی کبابی شخصیت بھی مولانا کی دعا اور اعمال و افعال کا پوسٹ مارٹم بدنام زمانہ اینکرز کے شانہ بشانہ کرتا نظر آیا۔ مولانا طارق جمیل کا یہ کہنا کہ میڈیا جھوٹ پھیلاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں رتی بھر بھی مبالغہ آرائی بھی نہیں، بڑے میڈیا ہاؤسز باقاعدہ پارٹی پوزیشنز لے چکے ہیں۔ کسے یاد نہیں قومی اسمبلی کے فلور پر میاں نواز شریف نے چوہدری نثار کو خصوصی تاکید کی تھی کہ جنگ/جیو کا نام لے کر کریڈٹ دیا جائے۔ میرشکیل الرحمن کے نوازشریف سے تعلقات کسی سے ڈھکے چپھے تو نہیں، حکومتی اشتہارات میں جنگ گروپ سب سے زیادہ مال بناتا رہا۔ اس کے نام نہاد بڑے صحافی عمران خان کی کِردار کشی کرتے رہے اور اُس کی ازدواجی زندگی کے بخیے ادھیڑتے رہے۔ اخبارات کی شہ سرخیاں وہ خبریں بنیں اور وہ باتیں ہوئیں جو شرفاء تو شاید خلوت میں بھی نہ کریں۔ اب بھی جیو کے بڑے اینکر اپنے بغض کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کہاں کی صحافتی اقدار ہیں؟ کیا انہیں صحافی بھی قرار دینا چاہیے؟
دوسری جانب موجودہ حکومت کا بڑا حمایتی چینل اے آر وائی بھی اسی ڈگر پہ ہے۔ ان کا جیو کے ساتھ جس کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ اختلاف کی وجہ مارکیٹ پر قبضہ کی لڑائی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے صحافیوں کے روپ میں بندے پلانٹ کیے ہوۓ ہیں جو ان کا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ بڑے نامور صحافی کبھی اپنے بارے سروے کروا کر دیکھ لیں، خلق خدا ان کے بارے کیا راۓ رکھتی ہے، لگ پتا جاۓ گا۔ اب تو آپ صحافی کا نام لیں، لوگ خود بتا دیتے ہیں کہ یہ حکومتی کیمپ میں ہے یا مخالف کمیپ میں، یہ کس جماعت کا کس گروہ کا کن نظریات کا حامی ہے۔غیرجانبدار صحافی ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے بھوسے میں سے سوئی کھوجنا، کیونکہ صحافیوں کے بارے تو یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک تنخواہ اپنے اس ادارے سے لیتے ہیں جس میں کام کرتے ہیں اور دوسری تنخواہ اپنی اس سیاسی جماعت سے بٹورتے ہیں جن کے کہنے پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں مائیک اور شکل ٹی وی سکرین پر آ رہی ہے وہ جو چاہے تمہت لگاۓ، کسی کی پگڑی سرعام اچھال دے- ثبوت کی ضرورت اور نہ قانون کا ڈر۔ آخرت کے ڈر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا نے سچ بول کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا اور پھر ان کے شر سے بچنے کے لیے معافی بھی مانگ لی مگر آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اس قسم کا طوفان بدتمیزی اٹھانے سے مولانا طارق جمیل کی کہی ہوئی بات جھٹلائی جا سکتی ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ایک راست باز اور شرم و حیا سے لبریز معاشرہ ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو کوئی بھی پاکستانی نجی نیوز یا انٹرٹینمنٹ چینل بہنوں بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر چند منٹ دیکھ لیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے صحافی راست گو ہیں اور ہمارے ملک کے نجی چینلز بے حیائی نہیں پھیلا رہے تو آپ مولانا کو ضرور غلط کہیں، لیکن اگر آپ جانتے ہیں کہ مولانا نے سچ کہا ہے تو انھیں نرغے میں لا کر چرب زبانی سے ذلیل کرنے کی بجاۓ اپنے آپ کی اصلاح کی کوشش کریں۔
"مجھے ہے حکم اذاں"
محمّد فیصل

خوبصورت تحریر
ReplyDeleteagreed
ReplyDeletePost a Comment