تماشہ نہ دیکھو مدد کرو

تماشہ نہ دیکھو مدد کرو
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کے سوشل میڈیا وقت کی اہم ضرورت اور اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے. آج سے کچھ عرصۂ پہلے ہزاروں بلکہ لاکھوں لکھنے والے باصلاحیت لوگوں کی تحریریں اخبارات کے ایڈیٹرز کی ردی کی ٹوکری میں جاتی تھیں مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے لکھنے والے اپنی تحریر اور بولنے والے اپنی آواز دنیا کو سنانے لگے. سوشل میڈیا دراصل ذاتی فوج کی طرح ہے، ہر شخص اسلحہ اور باردو سے لیس ہے، آپ کسی پر حملہ کریں گے تو منہ کی کھائیں گے، جتنی شدت سے حملہ کریں گے اسی شدت کا جواب ملے گا، جس وقت حملہ کریں گے اسی وقت جواب ملے گا، چند برس پہلے رات کے پچھلے پہر چھپنے والے اخبارات اگر کسی پر شب خون مارتے تھے تو مخالف کو پتہ اگلی صبح کو چلتا، اس کا ردعمل آنے کو ایک اور رات کا انتظار کرنا پڑتا۔ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ رشوت خور، دو نمبری کرنے والے، کم تولنے والے، بد اخلاق لوگ بھی اس سے محتاط ہیں کے کہیں ہماری ویڈیو بنا کر ہی کوئی پوسٹ نہ کر دے، گو کہ برائی ختم نہیں ہوئی مگر اب کھلے عام ہونا کم ہوئی ہے.
ایک اور عجیب کام یہ ہوا کہ مصیبت میں اپنے بھائی بندوں کی مدد کرنے والے اب کیمرہ نکال کر شوٹنگ کرتے ہیں کوئی تصویر بناتا ہے کوئی ویڈیو، حادثے کا شکار ہونے والا تڑپ رہا ہوتا ہے اور دنیا براۓ راست دیکھ رہی ہوتی ہے، الله کے بندے جب کوئی مصیبت میں ہو تو پہلا فرض اس کی مدد ہے نہ کے تصویر بنانا، دو دن قبل رائیونڈ کے ہسپتال کے باہر سڑک پر ہونے والی زچگی کی تصاویر اور ویڈیوز ہمارے دوست ثواب سمجھ کر سوشل میڈیا پہ پوسٹ کر رہے ہیں، جہاں ایک لاچار ماں، نومولود بچہ اور بےبس باپ حسرت و یاس کا بت بنا دیکھ رہاہے،کیا کسی کو بھی خیال نہیں آیا کے ان کی کوئی مدد کی جاۓ..؟ کیا آس پاس کوئی گھر نہ تھا..؟ کیا آس پاس کوئی غیرت مند نہ تھا..؟ حکومت کی غفلت اور ہسپتال کے عملے کا ظلم تو ظلم ہے مگر جو تماشہ دیکھنے بلکہ تماشہ بنانے والوں نے کر دیا کیا یہ درست عمل تھا..؟ ہمارے ارد گرد لاکھوں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن ہم لوگ ایک قوم بن کر سوچنے کی بجاۓ فرد بن کر سوچتے ہیں کے مصیبت صرف اس پر ہی آنی تھی جس پر آ گئی، سو ہمیں صرف تماشہ کرنا ہے، خدارا اس بات کو یاد رکھیں کے حادثہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، الله نہ کرئے کل میرے یا آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہو اور مصیبت کے وقت لوگ میری مدد کی بجاۓ میری ویڈیو بنائیں تو مجھ پر کیا گزرے گی..؟ویڈیو بنانے والوں کے ساتھ ساتھ ایک اور نیا فتنہ بھی ظاہر ہوا ہے، چند روز قبل اخبار میں ایک خبر پڑھی کے حادثے سے جاں بحق ہونے والی خاتون کی لاش کے کانوں سے ایک راہ گیر نے بالیاں نوچ لیں،
اگر سوشل میڈیا کو استعمال کرنا ہے تو ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں وہ کہیں جو کہنے سے پرنٹ میڈیا ڈرتا ہے، جو کہنے سے الیکٹرانک میڈیا کی جان جاتی ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا روایتی میڈیا سے زیادہ موثر ہے، اس کی پالیسیز کنٹرول کرنے والا، اس کے الفاظ کی کانٹ چھانٹ کرنے والا، کوئی نہیں صرف آپ خود ہیں، ہر شخص اپنی مرضی کی بات کہہ سکتا ہے، اس کی رائے کو متاثر تو کیا جا سکتا ہے لیکن خریدنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ یہاں کون سا کوئی اخبار کا مالک سیٹھ بیٹھا ہے جو اپنے بیٹے اور ادارے کے مستقبل کے لئے کسی سیاست دان کے مفادات کا تحفظ کرئے گا. مگر ایک عرصہ تک اپنی مرضی کی آواز عوام تک پہنچانے والے روایتی میڈیا کو اب برا تو لگے گا ہی جب اس کی رائے کے مخالف عوامی آوازوں کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ سو آئیں مل کر اپنے آپ کی اصلاح کریں.

محمّد فیصل


Post a Comment