مجھے
ہے حکم اذاں
آج کی جنرل رانیاں
آجکل ہمارے ملک کی سیاست میں ایک نیا سیاسی بھونچال آیا
ہوا ہے، اس کی وجہ کوئی اپوزیشن، عدلیہ، نیب یا کوئی سیکورٹی ادارہ نہیں بلکہ جنرل
رانی کی معنوی اولاد حریم شاہ اور صندل خٹک نامی خواتین ہیں. چند دن پہلے موصوفہ
نے وزیر ریلوے جناب شیخ رشید احمد کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو کال پیش کی اور کل وزیر
اطلاعات پنجاب جناب فیاض الحسن چوہان صاحب کی ایک آڈیو منظر عام پر آئی. اس سے
پہلے محترمہ نے وزارت خارجہ کے دفتر میں بھی کچھ ویڈیوز ریکارڈ کر کے ملک و قوم کو
وزیروں اور بیورو کریسی کی ترجیحات و دلچسبی سے اچھی طرح آگاہ کیا. حریم شاہ کے
علاوہ صندل خٹک صاحبہ کی طرف سے بھی مختلف انکشافات کا سلسلہ جاری ہے، اور امید
بلکہ یقین ہے کہ ان حضرات کے مداح اپنے سیاسی بتوں کو پاش پاش کرنے کی بجاۓ
ان کا پر خلوص دفاع بھی کرتے ہوں گے. ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے
مختلف ادوار میں ہمارے حکمرانوں اور وزراء کے ایسے درجنوں سکینڈل آتے رہے لیکن
عوام کے قلوب و اذہان میں یہی ہے کہ جو جتنا بڑا چور اتنا بڑا لیڈر، اخلاقی و مالی
طور پر جتنا کرپٹ ہے وہ معاشرے میں اتنا ہی معتبر ہے. ماضی کے اسکینڈلز مختلف
نوعیت کے رہے، کبھی تو سیاسی رقابت کی آگ میں جلتے سیاسی مخالفین اپنے حریفوں کی
کردار کشی کرتے رہے جیسے مرحومہ محترمہ بینظیر بھٹو کی غیر اخلاقی تصاویر بذریعہ
ہیلی کاپٹر اہلیان پاکستان تک پہنچانے کا سہرا جناب نواز شریف کے سر تو ہے ہی مگر
اقتدار کی غلام گردشوں میں چلتے پھرتے مہرے اس سیاسی حمام میں سب ننگے ہیں. کون
ایسا ہے جو ایک دوسرے کی حرکتوں سے واقف نہیں؟ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جمشید
دستی ہوا کرتا تھا، اس نے سوچا کہ پارلیمنٹ لاجز میں چلنے والی شراب و شباب کی
کہانیاں عوام کے سامنے لائی جائیں، پھر چشم فلک نے اسی جمشید دستی کو پابہ زنجیر
دیکھا، اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو ماں کے جنازے پر بھی جانے نہ دیا گیا. پھر
وہی جمشید دستی میڈیا پر روتا کرلاتا اور بین کرتا ہوا اور انہی خبیشوں سے سر عام
معافی مانگتا ہوا دکھایا گیا کہ جن کو بے نقاب کرنے کا خبط اس کے ذہن پر سوار تھا
جنرل رانی ہماری حکومتی تاریخ کا ایک ضخیم لیکن رنگین
باب تھی۔ اس کے سینے میں کئی راز ہائے سربستہ دفن تھے۔ وہ واحد’’ دلیر عورت‘‘ تھی
جو یہ بتا سکتی تھی کہ کس کس دور میں اس کی کون کون سی ’’معاصر‘‘ ہم جولیوں نے
ایوان ہائے اقتدار میں شراب و شباب کی محافل آراستہ کرنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔
وائے افسوس ! یہ راز اُن کے پیوند خاک ہوتے ہی رزقِ خاک بن گئے۔ ان’’ جگردار‘‘ اور
’’چٹخارے دار‘‘ خواتین کو جنرل نیازی ’’خوشبودار دیوداسیاں‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان دیو
داسیوں نے اس معاشرے اور مملکت میں ’’پنج تارا ادا فروشی اور حیا فروشی‘‘ کو
متعارف کروایا جس کے سب سے بڑے گاہک حکمران، وزراء اور جرنیل ہوا کرتے تھے. جنرل
رانی ’’پنج تارا ادا فروشی‘‘ کی بانیوں میں سے ایک تھیں، جنرل یحییٰ خان کے عہد
اقتدار میں جنرل رانی کا چرچا ہوا۔ ’’راجہ رانی‘‘ کی رنگ رلیوں اور چونچلوں کی ہوش
ربا داستانیں یحییٰ خان کے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد منظر عام پر آئیں۔
رانی اور یحییٰ خان کے مابین گل و بلبل اور شمع و پروانہ کا سا تلازماتی تعلق تھا۔
یحییٰ خان ’بوجوہ‘ ان پر جان چھڑکتے تھے، اس دور کی بیورو کریسی اور سیاست کے کئی
دیگر جرنیل بھی اقلیم اختر عرف جنرل رانی کی چشمِ سرمگیں سے شرابِ التفات کشید
کرتے رہے۔ جنرل رانی کی رقابت اگر کسی سے تھی تو وہ ملکہ ترنم نور جہاں تھیں۔ اب
یہ ایک کھلا راز ہے کہ یحییٰ خان کی محافل شبینہ میں نور جہاں بھی ساقی گری کے
فرائض بحسن و خوبی ادا کرتی رہیں۔
وقت کے حکمران ان کے آستانے پر جبینِ نیاز لے کر حاضر
ہوتے اور اپنے ’’شرارتی من‘‘ کی مرادیں پاتے۔ کھر گورنر بنے تو اس قسم کی اطلاعات
موصول ہونا شروع ہوئیں کہ جنرل رانی کی ’’جلوہ گاہِ جمال و وصال‘‘ سازشوں کا گڑھ
بن رہی ہے۔ نیلے آسمان کی بوڑھی آنکھوں نے اس طاقتور عورت کی دہلیز پر جانے وقت کے
کتنے اعلیٰ افسران کو ناصیہ فرسائی کرتے دیکھا۔ آسمان نے رنگ بدلا، حالات نے پلٹا
کھایا، لیل و نہار کی گردش نے کروٹ لی اور وہ کہاوت اپنا آپ منوا گئی کہ سدا
بادشاہی صرف میرے رب کی ہے سو وہ بادشاہ بھی رزق خاک ہوئے وقت بدلا حکومتیں بدلیں،
حکمران بدلے، وزراء بدلے مگر ایوان اقتدار کا چلن نہ بدلا. کبھی کسر شاہی کی زینت
طاہرہ سید بنی تو کبھی گلوکارہ ترانہ، کبھی اداکارہ ریما تو کبھی ماڈل گرل آیان
علی. اب جب حکومت بدلی ہے تو اب کہ فلم اسٹارز مہوش حیات کے علاوہ جدید دور کی ٹک ٹاک اسٹارز وزارت خارجہ کے دفاتر سے لیکر وزراء کے پرائیویٹ کمروں تک
پائی جاتیں ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت
بدل گیا مگر سیاست دانوں کے چلن نہیں.
شاید خواجہ ناظم الدین، لیاقت علی خان، چودھری محمد علی،
محمد خان جونیجو اور جنرل ضیاء الحق کے سوا پاکستان کے اکثر حکمران کسی نہ کسی
جنرل رانی کے زیر اثر رہے۔ ہر دور کسی نہ کسی جنرل رانی اور اس کی ’’بٹالین‘‘ کی
حکمرانی کا دور ہے۔ جنرل رانی مر چکی مگر وہ مطمئن ہے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ وہ
مطمئن ہے کہ اس کے بعد بھی اقتدار کے ایوانوں میں کسی نہ کسی جنرل رانی کے قہقہوں
اور چہچہوں پر دل و جان نثار کرنے والے رنگیلے یحییٰ خان کی باقیات موجود رہیں گی۔
جنرل رانی صرف ایک نام نہیں، وہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ وہ ایک استعارہ اور ادارہ
تھی۔ یہ ادارہ ناقابل تسخیر حد تک مستحکم ہو چکا ہے۔ جنرل رانی نے مقتدر طبقات کے
ایوانوں کو ہرنیوں، تتلیوں، بلبلوں اور میناؤں سے سجانے کا فن متعارف کروایا تھا۔
یہ فن اب مکمل بالغ ہوتا نظر آتا ہے۔ جنرل رانی کل بھی ایوان اقتدر پر قابض تھی
اور اس کی تربیت یافتہ کئی دیگر ’’کاریگر اور فنکار رانیاں‘‘ آج بھی ایوان ہائے
اقتدار کی ’’انٹریئر ڈیکوریشن‘‘ میں مصروف ہیں۔ ایک تقریر کے دوران پاکستان کے
زوال اور سقوط مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے آغا شورش کاشمیریؒ نے کہا تھا کہ
"اس کے ذمہ داران ان گنت ہیں لیکن ان میں انگور کا پانی اور جنرل رانی نمایاں
ہیں". الله پاکستان کے حکمران طبقے کو ہدایت دے. آمین
محمّد فیصل
Post a Comment